چهارشنبه 30/آوریل/2025

یاسر عرفات کی زندگی اور موت پر ایک نظر

اتوار 15-نومبر-2009

فلسطینی رہنما مرحوم یاسر عرفات تمام عمر متنازع رہے- ان کے حامیوں کی نظر میں وہ کم و بیش فلسطینیوں کے ان داتا تھے جنہوں نے فلسطینی قوم کی جدوجہد آزادی کا مقدمہ لڑا-
 
یاسرعرفات کا شکریہ اور عوام کی او العزمی کو سلام کہ فلسطینی تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہوجانے کے بجائے آج بطور قوم زندہ ہیں حالانکہ یہ تاریخ ہم فلسطینیوں پر کبھی مہربان نہیں رہی- یاسر عرفات جہاں کہیں بھی گئے اپنی موت سے نبرد آزما ہوئے اور داخلی و خارجی دشمنوں کی سازشوں سے بچ نکلتے رہے یہاں تک کہ وقت قضاء آن پہنچا جابجا پھیلے اپنے لاتعداد دشمنوں کے نزدیک وہ ایک سیماب صفت‘ غیراخلاقی اور بے ایمان شخص تھے-
 
عرفات کو مشرق وسطی کی پرخار وادی میں راستہ بنانے کے لئے جمال عبدالناصر سے صدام حسین تک ان عرب رہنماوں کو بیشتر مواقع پر خوش کرنا پڑا جنہوں نے مسئلہ فلسطین کو کبھی اہمیت نہ دی چلو ان لوگوں کی غیرمحتاط پالیسیوں اور اہانت آمیز بے تدبیری کا بھی شکریہ- اب یاسر عرفات کو رخصت ہوئے پانچ سال بیت چکے ہیں لیکن روئے زمین پر ان کی شخصیت ابھی بھی متنازع ہے اور کئی سوالات تشنہ ہیں کیونکہ ان کی موت تاحال ایک معمہ ہے کہ کیا واقعی انہیں اسرائیلی خفیہ اداروں نے زہر دیا؟ یا پھر ان کے کسی معاون نے زہر پلانے میں کوئی کردار ادا کیا؟ چند روز قبل فتح کے لیڈر فاروق قدمی نے جو کہا اس کے تناظر میں کیا پی ایل او کی موجودہ قیادت بھی اسرائیل کو یاسر عرفات کا قاتل سمجھتی ہے؟ فلسطینی انتظامیہ اکثر و بیشتر یہ کہتی رہتی ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے یاسر عرفات کو زہر دیا-

عرفات کے ذاتی معالج بھی اس مفروضے کی تائید کرتے ہیں لیکن یہ موقف فرانس کی اس طبی رپورٹ سے متصادم ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یاسر عرفات کی موت ایڈز کے باعث واقع ہوئی‘ 5 سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک فلسطینی انتظامیہ اور پی ایل او عرفات کی موت کی جامع‘ مفصل اور حقیقت پر مبنی تحقیقات کرانے میں ناکام ہیں اور کئی سال بعد  آج فلسطینی عوام کو معلوم نہیں کہ ان کی موت کن حالات میں ہوئی- اسی طرح ان کی بیوہ سوہا بھی ان کی موت سے جڑے پس پردہ حقائق پر بات کرنے سے انکاری ہیں-
 
عرفات کے بھانجے نصیرالقدوہ یہ بات برملاء کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل اور صرف اسرائیل ہی ان کے چچا کی موت کا ذمہ دار ہے- 11 نومبر کو ان کی پانچویں برسی کے موقع پر رام اللہ میں ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نصیرالدوہ نے کہا کہ ’’مرحوم فلسطینی رہنما کو اسرائیل نے زہر دیا اور ان کی موت شہادت ہے‘‘ اور یہ کہ ’’ہم ان کی موت سے جڑے پورے سچ کو منظرعام پر لانے کے لئے تمام شہادتیں حاصل کریں گے‘‘-
اگر عرفات کے جسم میں کھانے یا کسی اور طریقے سے زہر منتقل کیا گیا تو یقینا مکمل وثوق کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہوگا کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے- جب تک قابل اعتماد ماہرین پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی اس معاملے کی مکمل انکوائری نہ کرلے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہوا اور یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ کیا ان کی موت ایک سازش تھی اور اگر سازش تھی تو اس میں ان کے کون سے قریبی ساتھی ملوث ہیں-

مختصر یہ کہ فلسطینی عوام کو یہ جاننے کا پورا حق حاصل ہے کہ اصل میں ہوا کیا تھا- فلسطینی انتظامیہ اور پی ایل او کی قیادت حقائق سامنے لانے میں جس حیل و حجت کا مظاہرہ کررہے ہیں اس سے تو یوں لگتا ہے جیسے وہ عوام سے کچھ چھپا رہے ہیں اور سچ بات سامنے  نے سے خوفزدہ ہیں یا پھر یہ کہ وہ اپنی عوام کا اعتماد مجروح کر رہے ہیں- اس معاملے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یاسر عرفات جنہوں نے تن تنہا حکمرانی کی اپنی پوری زندگی میں اکیلے سب فیصلے کئے اور سارا خزانہ ان کی دسترس میں تھا- انہوں نے اپنے پیچھے اربوں ڈالر چھوڑے ہیں- لہذا لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ یہ اربوں ڈالر کہاں غائب ہوگئے کیونکہ یہ عوام کا پیسہ ہے اور ہر فلسطینی مرد وزن اور بچے کو اس کے بارے میں پوچھنے کا حق حاصل ہے-

حالیہ سالوں میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ یاسر عرفات کی موت کے چند ہفتوں بعد ہی فتح اور پی ایل او کی قیادت نے ان کی بیوہ سوہا عرفات سے ایک خفیہ ڈیل کی جس کے تحت انہوں نے خاموش رہنے کی بہت بڑی قیمت وصول کی- ذرائع کے مطابق سوہا عرفات جو 2 سال پہلے تک تیونس میں قیام پذیر تھیں انہوں نے مالٹا کے ایک بینک میں 5 کروڑ ڈالر منتقل کئے-

یاد رہے کہ ان کے بھائی مالٹا میں پی ایل او کے سفیر ہیں- اس رپوٹ کی کسی طرف سے تردید یا تصدیق نہیں کی گئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ایل او کی قیادت اس گھنائونے کھیل میں شامل ہے-

بطور صحافی جب میں نے کئی مواقع پر پی ایل او کے بعض رہنمائوں سے اس بارے میں استفادہ کیا تو انہوں نے پہلے تو اس معاملے پر گفتگو سے گریز کیا مگر بار بار اصرار پر مجھے مشورہ دیا کہ یہ الزامات عائد کرنے سے پہلے مجھے اس معاملے کی مکمل تحقیقات کرلینی چاہئیں- میں نے انہیں گوش گزار کیا کہ تحقیقات کے لئے پوری حکومتی مشینری درکار ہوتی ہے اور اس معاملے میں ایک صحافی کا کردار صرف اتنا ہی ہے کہ وہ کسی معاملے کو اجاگر کر دے-

مجھے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یاسر عرفات کے بینک اکاونٹس کے ضمن میں کوئی گھناونا کھیل کھیلا گیا ہے اور اس میں بھی دورائے نہیں کہ وہ گواہان جو خاموش ہیں وہ اس وجہ سے زبان نہیں کھول رہے کہ کہیں یہ بڑے مگرمچھ اور ان کے شراکت دار سچ بولنے پر انہیں قتل نہ کریں- دراصل یہ وہ افسوسناک پہلو ہے جو فلسطینی انتظامیہ کی چھتری تلے ناگفتہ بہ صورتحال کی عکاسی کرتا ہے-

 آخری بات یہ یہ فلسطینی انتظامیہ کی قیادت جو امریکیوں اور شاید اسرائیلیوں کے ساتھ ہر سازش میں شریک ہے وہ مرحوم فلسطینی لیڈر کے دشمنوں سے ملکر یاسر عرفات کے گیت گا رہی ہے ؟ یہ سراسر منافقت اور بے ایمانی نہیں تو اور کیا ہے اور فلسطینی عوام کو ان منافقوں کے ہاتھوں بیوقوف نہیں بننا چاہیے-

مختصر لنک:

کاپی