اسرائیل حرم الشریف کی حدود میں ایسی جگہ کھدائی کر رہا ہے جو ماہرین کے مطابق مسجد اقصی کی بنیادوں کو غیرمستحکم کرنے کا باعث بن سکتی ہیں- چند ماہ قبل اس کھدائی کے باعث مسجد اقصی کے مغربی داخلی دروازے کے قریب صحن میں گڑھے پڑ گئے تھے- اس کے علاوہ صحن میں موجود زیتوں کے سرسبز درخت سوکھنا شروع ہوگئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل اس کے نیچے کھدائی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے-
بدقسمتی سے اردن ان اشتعال انگیز واقعات کی سنگینی کا ادراک نہیں کر پا رہا جس سے اسرائیل کو مزید شہ چل رہی ہے اور اب تو مسجد اقصی کو صیہونی جنونیوں کے متواتر حملوں سے سالمیت کا خطرہ لاحق ہے کیونکہ یہ لوگ ایک خالصتاً اسلامی عبادت گاہ میں نمازوں کے حقوق حاصل کرنے کے بہانے قدم جمانے کی کوشش کررہے ہیں- یہ بنانے کی تو قطعاً ضرورت نہیں کہ مسجد کی بے حرمتی کرنے والے چند مذہبی شدت پسند صیہونی نہیں بلکہ یہ سب اسرائیلیوں کی نمائندگی کرتے ہیں کیونکہ ان انتہاپسندوں کو حکومت کی پشتیبانی حاصل ہے‘ اسرائیلی پارلیمنٹ اور یہاں تک کے پولیس اور فوج میں ان کے تعلقات و روابط ہیں-
درحقیقت اسرائیلی فوج میں کلیدی عہدوں پر موجود نصب سے زائد فوجی افسران انتہاپسند نظریاتی یہودیوں کے حمایتی ہیں- لہذا اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ مسجد اقصی میں انتہاپسند ہیں تو وہ جھوٹ کہتا ہے- ان صیہونی شیطانوں کے حملے عمان اور دیگر عرب و مسلم ممالک کے معمول کے مذمتی بیانات سے نہیں روکے جا سکتے-
سوباتوں کی ایک بات کہ اردن کو اسرائیل سے محض یہ یقین دہانی حاصل کرنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ امن قائم ہونے تک سٹیٹس کو کی صورتحال برقرار رکھے گا کیونکہ اسرائیل جھوٹ بولنے میں مہارت رکھتا ہے اور اس کی یقین دہانیوں اور وعدوں کی کوئی اہمیت نہیں- اگر کسی کو ثبوت چاہیے اس بات کا کہ اسرائیل کو عرب اور مسلم ممالک کے تحفظات کی کوئی پرواہ نہیں تو اس کے لئے یہی ثبوت کافی ہے کہ چند سال قبل ایک اسرائیلی عدالت نے صہیونیوں کو حرم الشریف میں عبادت کرنے کی اجازت دے دی تھی-
اسرائیلی دعوی اپنی جگہ کہ یہودیوں کو مسجد اقصی کی سیاحت کا حق حاصل ہے مگر اس طرح جس طرح دنیا بھر کے سیاح ادب و احترام سے آتے ہیں اور یاد رہے کہ ہم بھی ان سیاحوں پر اعتراض نہیں کر رہے بلکہ ان انتہا پسند جنونی یہودیوں اور دہشت گردوں کی بات ہو رہی ہے جن کی آمد کا مقصد اس مقصد جگہ کے ملکیتی حقوق مسلمانوں سے چھیننا ہے حالانکہ 638 ہجری میں خلیفہ دوئم حضرت عمر ابن الخطاب کے ہاتھوں بازنطینی حکومت کی شکست اور بیت المقدس کی فتح کے بعد سے اب تک مقبوضہ بیت المقدس کا انتظام متواتر مسلمانوں کے ہاتھ میں رہا ہے- یہودیوں کی آمد کا مقصد اس قبلہ اول کی جگہ مبینہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر ہے-
یہ محض دشنام طرازی نہیں بلکہ حقیقت ہے اور جو کوئی بھی سچ کا متلاشی ہو وہ اسرائیلی ذرائع ابلاغ سے بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہودی رہنما کس طرح کھلے عام مسجد اقصی کو گرانے کی باتیں کرتے ہیں- مثال کے طور پر یہودی کے مذہبی پیشوائوں اور اسرائیلی ارکان پارلیمنٹ کا ایک اجلاس 25 اکتوبر کو اتوار کے دن مغربی مقبوضہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی نامی اس جگہ ہوا جہاں پر مبینہ ہیکل سلیمانی کا ماڈل رکھا گیا ہے-
اس اجلاس کے دوران محض زبانی کلامی باتیں ہی نہیں بلکہ مسجد اقصی کو گرانے کی تدبیریں اور منصوبے تیار ہوتے رہے- اس انتہا پسند گروہ کے سرغنہ نے تو مسجد اقصی کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ’’اس کا فرانہ اور ملحدانہ عمارت کو گرا دینا چاہیے‘‘- جہاں تک اسرائیلی حکومت کا سوال ہے تو وہ مسجد اقصی کو گرا کر ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والے انتہا پسند یہودی جنونیوں اور دہشت گردوں کو روکنا تو درکنا ان کی حوصلہ شکنی بھی نہیں کرتی اگرچہ اردن کے اسرائیل سے تعلقات اس تناظر میں بہت حساس نوعیت کے ہیں کہ ایک تو دماغی نقطہ نظر سے اردن کو بہت سے پہلوئوں پر غور کرنا پڑتا ہے اور دوسرا یہ خدشہ بھی ہے کہ اسرائیل تمام فلسطینیوں کو وہاں سے نکال کر زبردستی اردن کی طرف نہ دھکیل دے تاہم اسرائیل کے ساتھ معذرت خواہانہ طرزعمل اختیار کرنا صرف اردن اور فلسطینیوں کیلئے ہی نقصان دہ نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا کی ناموس کے خلاف ہے-
حرف آخر یہی ہے کہ اردن اس حقیقت کا ادراک کر لے کہ اسرائیل کے ساتھ مستحکم تعلقات اتنے ضروری نہیں جتنا کہ قبلۂ اول اور اسلام کے تیسرے مقدس ترین مقام کو صیہونی شرپسندوں سے بچانا ضروری ہے- اردن کو یہ بات بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح کے فرسودہ اور روایتی بیانات دینا کہ اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس میں جو کچھ کررہا ہے اس کے نتیجے میں امن عمل پٹڑی سے اتر جائے گا (وہ امن عمل جس کا کا سرے سے کوئی وجود نہیں ہے)‘ ان کے نتیجے میں اسرائیل کو مزید شہ ملتی ہے اور مسلم ممالک کے ردعمل کی اہمیت اور کم ہوجاتی ہے‘ لہذا اردن کو ٹھوس موقف اختیار کرنا ہو گا-
سچ تو یہ ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے نتیجے میں اردن اور دیگر عرب و مسلم ممالک کے بنیادی مفادات کا تحفظ ممکن نہیں تو پھر مصر سمیت کسی بھی مسلم ملک کو اسرائیل سے تعلقات استوار رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟