مجھے اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ غداری جیسے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیل کو خوش کرنے اور اوباما انتظامیہ کو راضی کرنے کیلئے قومی مفادات کا دانستہ یا غیردانستہ طور پر سودا کرنا اخلاقی یا سیاسی اتعبار سے کسی طرح قابل قبول نہیں- ہم ایک ظالم استعمار کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرتے وہ لوگ ہیں جنہیں نسل پرستانہ قتل عام سے اوچھے ہتھکنڈوں تک ہر طرح کے مصائب کا سامنا ہے لہذا ہمارے لئے یہ صورتحال قابل قبول نہیں کہ تیسرے درجے کی قیادت ہمارے قومی مفادات کا سودا کرتی پھرے- محمود عباس کے پاس
شاید اپنے آپ کو بچانے اور اس بلنڈر کی شدت کم کرنے کے لئے بہت سے جواز ہوں مثال کے طور پر یہ کہ وہ بے پناہ امریکی دباو کا شکار تھے یا پھر انہیں اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ ان کے اس فیصلے سے فلسطینی عوام کی جدوجہد کو کس قدر نقصان پہنچے گا لیکن اس طرح کا کوئی جواز قابل قبول نہیں اور صرف بے ایمان لوگ ہی محمود عباس کو شک کا فائدہ دے سکتے ہیں- وجہ صاف طاہر ہے کہ اگر نا اہلی‘ سیاسی بے تدبیری یا پھر شعور و ادراک نہ ہونے کے باعث ہی قومی معاملات میں غیرذمہ داری کا مظاہرہ ہوا تو ایسی صورت میں محمود عباس فلسطینی عوام کی قیادت کرنے کے لائق نہیں کیونکہ غداروں کی طرح نااہل قائد بھی اپنی اقوام کیلئے نقصان دہ ہوسکتے ہیں لیکن اگر محمود عباس کو علم تھا کہ امریکی ہدایت پر کئے جانے والے اس فیصلے سے فلسطینی جدوجہد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور اس کے باوجود انہوں نے نہایت بے شرمی سے اس کا ارتکاب کیا تو ایسی صورت میں ان کے اس بلنڈر کو غداری ہی کہا جائے گا-
چنانچہ تمام صورتوں میں محمود عباس کے پاس فلسطینی انتظامیہ کے صدر کے طور پر اپنے عہدے پر برقرار رہنے کا کوئی جواز نہیں کیونکہ فلسطینیوں کی جدوجہد ایک اور خطاء یا تعبیر کی غلطی کی متحمل نہیں ہوسکتی- آج تو معاملہ جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے اسرائیلی مجرموں کو عالمی مزمت اور ممکنہ عدالتی کارروائی سے بچانے کا ہے لیکن اگر اس نااہل قیادت کو نہ ہٹایا گیا تو خدا جانے کل کیا ہو- یہ نہیں ہوسکتا کہ اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے آپ کو غصہ نہ آئے کیونکہ آخرکار یہ ان 1400 بے گناہ اور معصوم فلسطینیوں کے قتل عام کا معاملہ ہے جنہیں نہایت ظالمانہ اور وحشیانہ طریقے سے مارا گیا اور ان میں سینکڑوں بچے بھی شامل ہیں-
سچ تو یہ ہے کہ دس ماہ قبل غزہ پر اسرائیلی جارحیت ہولوکاسٹ کی ہی ایک شکل تھی کیونکہ ایک ایسے قوم جو نہتی‘ بے یارومددگار اور محاصرے میں گھری ہو جس کے پاس بچوں کو کھلانے کیلئے خوراک تک نہ ہو اور جنہیں زندہ ہونے کا ثبوت دینے کیلئے ہر روز مرنا پڑتا ہو اس کے خلاف ایک علاقائی سپرپاور کی جارحیت کو اور کیا کہا جاسکتا ہے؟ اور جب ان قاتلوں اور بچوں کے خونیوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے ثار نظر آئے تو مظلوموں کی نمائندگی کرنے والے محمود عباس نے یہ کہہ کر اسرائیلی جرائم پر پردہ ڈال دیا کہ ’’ابھی نہیں‘‘ کوئی ان سے پوچھے جناب صدر! اگر اب نہیں تو کب؟ جب ہٹلر کے جانشین غزہ‘ نابلس اور الخلیل کو نازی جرمنی کے شہروں کی طرح کھنڈرات میں بدل دیں گے؟ ابھی تو دنیا بھر کے انسانوں کا ضمیر زندہ ہے مگر کیا آپ اس وقت کے منتظر ہیں جب نازیوں کی طرح اسرائیلیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کو معمول کے واقعات سمجھنا شروع کردے گی؟
فلسطینیوں کو اس بات پر حیرت زدہ ہونا بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ایک ایسا شخص جسے یہ معلوم نہیں کہ اس کے فیصلوں کے کیا عواقب و نتائج ہو سکتے ہیں اس کے کاندھوں پر پوری قوم کی ذمہ داریاں ڈال کر یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ صیہونیت کے پنجوں میں جکڑی فلسطینی قوم کو آزادی اور ان کے حقوق دلائے گا- یہ فکر بھی اپنی جگہ درست اور معقول ہے کہ عباس انتظامیہ جس نے یہ حماقت اور دھوکے بازی کی وہ مستقبل میں اس سے کہیں بڑی حماقت مثلاً مقبوضہ بیت المقدس یا اپنے علاقوں سے بیدخل کئے گئے لاکھوں فلسطینیوں کے حق واپسی پر سرنڈر بھی کرسکتی ہے-
حقیقت یہ ہے کہ اس بات کے شواہد پہلے ہی موجود ہیں کہ محمود عباس متذکرہ بالا دونوں معاملات (مقبوضہ بیت المقدس اور فلسطینیوں کے حق واپسی) پر سمجھوتہ کرنے کو تیار ہیں لہذا ہم فلسطینیوں کو رہنما بقاء اور سالمیت کے خلاف ہونے والی ایسی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے بیدار رہنا ہوگا- اس لئے میرا یہ پرزور مشورہ ہے کہ محمود عباس اس موقع پر درست فیصلہ کریں اور فوری طور پر مستعفی ہوجائیں کیونکہ اس باعزت رخصتی کے نتیجے میں وہ مزید خفت سے بچ جائیں گے اور پھر فتح کو بھی اس افسوسناک واقعہ سے صحیح نتائج اخذ کرنے چاہئیں کیونکہ یہ فیصلہ کرنے کیلئے آپ کو تعلقات عامہ کا ماہر ہونے کی ضرورت نہیں کہ اس شخص کا مزید اس عہدے پر رہنا فتح کے لئے تباہ کن ہوگا اور یہاں تو مسئلہ محض تعلقات عامہ کا نہیں بلکہ خود فلسطینیوں کا ہے- محمود عباس! لوگ تمہیں آسانی سے معاف نہیں کریں گے کیونکہ تم بہرحال یاسر عرفات نہیں ہو-