چهارشنبه 30/آوریل/2025

فلسطینی انتظامیہ کا عوام سے ایک اور دھوکہ

جمعرات 8-اکتوبر-2009

فلسطینی انتظامیہ کا حالیہ فیصلہ جس کے تحت اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل کے جنیوا میں ہونے والے اجلاس میں گولڈ اسٹون رپورٹ پر ووٹنگ مارچ تک ملتوی کردی گئی ہے-فلسطینی عوام سے بہت بڑا دھوکہ ہے- فلسطینی انتظامیہ کے اس احمقانہ اور شرمناک اقدام سے ان اسرائیلی مقاصد کی تکمیل ہوگئی ہے جن کے تحت صیہونی ریاست نو ماہ قبل غزہ کی پٹی میں کئے گئے اپنے مجرمانہ حملے کے دوران نازیوں جیسے مظالم پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے-
 
اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں اس رپورٹ پر عملدرآمد کی صورت نہ صرف ہیگ کی عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ چلایا جا سکتا تھا بلکہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں بھی اسرائیل کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی تھی-
 
فلسطینی انتظامیہ نے اس مجرمانہ فعل کا دفاع کرنے کیلئے دروغ گوئی کی تمام حدیں عبور کر لی ہیں مگر فلسطینی عوام اور دانشوروں کی اکثریت کے نزدیک فلسطینی انتظامیہ نے ایسا کر کے غداری کا ارتکاب کیا ہے-
اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں فلسطینیوں کو اکثریت کی واضح حمایت حاصل ہے کیونکہ 47 ارکان میں سے 35 رکن ممالک فلسطین کے ساتھ ہیں اس لئے گولڈ اسٹون کمیشن کی رپورٹ پر قرارداد بآسانی منظور ہو جاتی اور اس معاملے کو عالمی عدالت انصاف یا انٹرنیشنل کریمنل کورٹ بھجوایا جاتا- لہذا فلسطینی انتظامیہ کے ووٹنگ ملتوی کرنے کی صرف اور صرف ایک ہی توجیہہ ہے کہ رام اللہ انتظامیہ نہ صرف اسرائیل اور اوباما انتظامیہ کو خوش کرنا چاہتی ہے بلکہ اس کا مقصد غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جنگی جرائم کے متاثرہ فلسطینیوں کی آہ و بکا سے صیہونی ریاست کو بچانا ہے-
 
اگر اسرائیل 1300 فلسطینیوں کو قتل کرنے اور غزہ کے  دھے سے زائد علاقے کو تباہ کرنے کے باوجود راہ فرار حاصل کر سکتا ہے تو پھر آئندہ ہولوکاسٹ یورپی علاقوں میں بھی ہو سکتا ہے اور یہی کہا جائے گا کہ دنیا کو فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی ہونے کی ضرورت نہیں؟

قرارداد پر ووٹنگ موخر ہونے سے قبل اطلاعات تھیں کہ امریکی صدر اوباما نے بذات خود فلسطینی انتظامیہ سے پس پردہ رابطوں کے دوران اس رپورٹ سے دستبردار ہونے کو کہا تھا کیونکہ ان کے خیال میں ایسا کرنے سے امن عمل متاثر ہونے کا امکان تھا- اس طرح کی اطلاعات بھی ہیں کہ فلسطینی انتظامیہ نے یہ فیصلہ صیہونی ریاست سے سودے بازی کے نتیجے میں کیا ہے جس کے مطابق اسرائیل فلسطینی انتظامیہ کے ایک اعلی عہدیدار کی کمپنی کو تجارت کا لائسنس دے گا اور اس کے بدلے رام اللہ انتظامیہ گولڈ اسٹون رپورٹ سے دستبردار ہوجائے گا-

فلسطینی اتھارٹی کے اقوام متحدہ میں سفیر ابراہیم خریشی نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فلسطینی قیادت اسرائیل سے سمجھوتہ کرنے کی خواہاں ہے اور انہوں نے اس کی منطق یہ پیش کی کہ اس طریقے سے ہم اسرائیل کو بتا سکیں گے کہ عالمی برادری فلسطینی عوام کی توقعات و خوابوں کی تکمیل کے لئے ان کے ساتھ ہے‘ کیا احمقانہ بیان ہے کیا اسرائیل کے 42 سالہ ظالمانہ قبضے کے باوجود بھی ہمیں اپنی مشکلات و مصائب بتانے کی ضرورت ہے؟ کیا مسٹر خریشی کے خیال میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوئی توجیہہ قابل قبول ہوسکتی ہے؟ کیا پی ایل او کے سفیر کو یہ خوش فہمی ہے کہ ان کے ایسا کرنے سے تل ابیب میں بیٹھے اسرائیلی جنگی مجرم فلسطینیوں کے خلاف اپنے رویوں پر نظرثانی کرلیں گے؟ اور پھر یہ تو بتایا جائے کہ آخر یہ سمجھوتہ یا سودے بازی ہے کیا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ اسرائیل نے غزہ کے معصوم عوام کے خلاف دانستہ طور پر جنگی جرائم کا ارتکاب کیا؟ کیا اسرائیل نے جدید اور مہلک امریکی ہتھیار استعمال کرتے ہوئے غزہ میں موت کی برسات نہیں کی؟ کیا ہزاروں فلسطینی مرد و خواتین کو بے گناہ قتل نہیں کیا گیا؟ کیا اسرائیل نے غزہ کے ساحلی علاقوں میں فلسطینیوں پر سفید فاسفورس پھینک کر ان کی زندگی اجیرن نہیں کی؟ کیا اسرائیلی فضائیہ نے جان بوجھ کر بلندی سے گھروں‘ مساجد‘ تعلیمی اداروں‘ ہسپتالوں اور غزہ کے سکولوں پر بمباری نہیں کی؟ تو پھر کوئی بھی ایماندار اور بااخلاق انسان ان جنگی جرائم کو ایک طرف رکھتے ہوئے اسرائیل سے سودے بازی کیسے کرسکتا ہے؟ اب جبکہ ہمارا مقدر بچے قتل کرنے والے ظالموں اور دھوکہ بازوں کے ہاتھ میں ہے تو ہم فلسطینیوں کو لگی لپٹی رکھے بغیر جو جیسا ہے اسے ویسا ہی کہنا چاہیے-

ڈیہونی تاری بری‘ بحری اور ہوائی افواج نے غزہ اور مغربی کنارے میں ہمارے عوام کے خون سے ہولی کھیلی- گھناونے جرائم  کا ارتکاب کرتے ہوئے دن دیہاڑے‘ پوری دنیا کے سامنے ہمارے لوگوں کو قتل کیا گیا جو کچھ انہوں نے کیا‘ وہ کوئی ڈھکی چھپی بات یا متنازع داستان نہیں- قسام بریگیڈ کی طرف سے پھیکنے جانے والے نام نہاد راکٹوں کو اسرائیلی فوج کی موت بانٹنے والی مشینوں سے نہ جوڑا جائے کہ ان دونوں کے نتیجے میں ہونے والی جانی و مالی نقصان کا کوئی موازانہ ہی نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ رپورٹ تیار کرنے والا شخص جسٹس گولڈ اسٹون بذات خود ایک صیہونی اور یہودی ہے لہذا وہ اسرائیل کے جنگی جرائم کے ضمن میں کوئی بات بڑھا چڑھا کر بیان کر ہی نہیں سکتا- لہذا ساری دنیا کو معلوم ہو کہ ایک طویل عرصے سے کس طرح فلسطینیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے اور رام اللہ کی فلسطینی قیادت‘ اس کے جنیوا میں سفیر نے اسرائیلی دباو کے باعث فلسطینیوں کے حقوق سے کس طرح دستبردار ہوکر سودے بازی کی ہے- کیا ہزاروں بچوں کے قتل عام جیسے سنگین جنگی جرائم میں ملوث اسرائیلی فوج سے سودے بازی کی وکالت کرنے والوں کے پاس غیرت اور قومی وقار جیسی کوئی چیز موجود نہیں؟ اگرچہ رام اللہ انتظامیہ کی ہدایات پر عملدرآمد کرنے والے سفیر مسٹر خریشی کو ہی مورد الزام ٹھہرانا مناسب نہیں لیکن کیا ہی بہتر ہوں کہ وہ قوم سے دھوکہ دہی کے اس عمل کا حصہ بننے کے بجائے مستعفی ہوجائے-
 
اصل مجرم تو رام اللہ کی فلسطینی انتظامیہ ہے جس نے اسرائیل اور اوباما کو سودے بازی کے تحت خوش کرنے کے عوض فلسطین کے قومی مفادات کو گروی رکھ دیا- اندر خانے جو بھی مفادات حاصل کئے گئے ہوں مگر اس ڈیل کے بظاہر اثرات تو یہی ہیں کہ مغربی کنارے میں یہودی تعمیرات اور مسجد اقصی کی بے حرمتی کے واقعات بڑھ  گئے ہیں اور نہتے فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی مظالم میں مزید اضافہ ہوگیا ہے-

دوسری طرف اوباما انتظامیہ بھی فلسطینی انتظامیہ کو اپنے عوام سے دھوکہ دہی کا ثمر یہ دے رہی ہے کہ نہ صرف اسرائیلی تعمیرات کے سلسلے سے یہ اغماض برتا جا رہا ہے بلکہ فلسطینی انتظامیہ کو مغرور اسرائیلی حکومت سے غیرمشروط طور پر مذاکرات کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے- ظاہر ہے کہ جو لوگ اپنی عزت آپ نہیں کرتے کوئی اور بھی ان کی عزت نہیں کرتا اور پھر یہ کہ جو انتظامیہ اسرائیل کو خوش کرنے اور اس سے تمغہ حسن کارکردگی لینے کے لئے اپنے ہی شہریوں کو قتل کرنے‘ گرفتار کرنے اور ان پر تشدد کرنے سے گریز نہیں کرتی وہ فلسطینی عوام کی حقیقی نمائندہ کیسے ہوسکتی ہے؟

اور آخری بات یہ کہ فلسطینی انتظامیہ بھی اسرائیل کی طرح گولڈ اسٹون رپورٹ کو معاملے کو طوالت دینا چاہتی ہے- ذرائع کے مطابق فلسطینی انتظامیہ اسرائیل کو غزہ میں جنگی جرائم کا سلسلہ ’’مقاصد‘‘ کے حصول تک جاری رکھنے پر بھی اصرار کرتی رہی ہے- اسرائیل کے پاس بھی کچھ ایسے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں جس کے مطابق فلسطینی انتظامیہ کے عہدیدار حماس کو کچلنے کیلئے غزہ میں جنگ جاری رکھنے کی درخواست کرتے رہے ہیں لہذا فلسطینی انتظامیہ اسی لئے نہایت تذبذب میں مبتلا ہے گولڈ اسٹون رپورٹ پر عوامی سطح پر بحث و تمحیص سے گریزاں ہے کہ کہیں اس کے نتیجے میں اس کا یہ پول نہ کھل جائے کہ غزہ میں قتل عام اور اسرائیل کے جنگی جرائم میں وہ خود بھی شریک جرم ہے-

مختصر لنک:

کاپی