ہیں- ہم حقیقی جمہوریت کے لیے کوشاں ہیں- مجھے اس وقت حیران کن صورت حال کا سامنا کرناپڑا جب فلسطینی مجلس قانون ساز کے دروازے میرے لئے بند کردیئے گئے- میں اپنا فطری حق استعمال کروں گا- ان خیالات کا اظہار فلسطینی مجلس قانون ساز کے اسپیکر ڈاکٹر عزیز دویک نے مرکزاطلاعات فلسطین کو انٹرویو میں کیا- انٹرویو کے متن کااردو ترجمہ زائرین کی نذر ہے –
اسرائیلی قید سے رہائی کے بعد آپ نے فلسطینی مجلس قانون ساز کو دوبارہ فعال بنانے کی جو کوششیں کی ہیں اس کے متعلق بتائیے گا؟
جواب :اسرائیلی عقوبت خانوں سے رہائی کے بعد میری کوشش تھی کہ میں اپنے دفتر میں بیٹھ کر تمام معاملات دیکھوں- لیکن مجھے اس وقت انتہائی حیران کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب مجلس قانون ساز کے دروازے میرے لیے بند رکردیئے گئے- مجھے اس بارے میں پہلے ہی اندازہ تھا لیکن میں نے تمام باتوں کو مسترد کرتے ہوئے اپنا وہ کردار ادا کرنے کا طے کیا تھا جس کے لیے مجھے فلسطینی عوام نے منتخب کیا – میں نے اپنا کردار ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی – لیکن فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے حتمی فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ وہ مجھے کسی صورت میں بھی اپنے دفتر میں نہیں جانے دے گی-
اس بارے میں مزید کیا تفصیلات ہیں؟
جواب :شروع میں میں نے دفتر میں واپسی کے لیے بطور تمہید مختلف اداروں اور سول سوسائٹی کے 300اہم اراکین کو دعوت دی تاہم پارلیمانی گروپوں اور مغربی کنارے کے اسلامی گروپوں کے اراکین پارلیمنٹ نے مداخلت کی اور فلسطینی مجلس قانون ساز کے دفتر کا چارج سنبھالنے کے میرے فیصلے کو 27جولائی تک موخرکردیاگیا- اس سلسلے میں تمام پارلیمانی گروپوں میں معاہدہ طے پایا کہ 272جولائی کو پارلیمنٹ کے اسپیکر کا دفتر کھول دیا جائے گا-
اس معاہدے پر فتح نے بھی دستخط کئے – معاہدہ طے پانے کے بعد ہمیں اس وقت دھچکا لگا جب فتح کے رہنماعزام احمد نے ٹی وی چینلوں پر آکر معاہدے کا انکار کردیا- عزام احمد کے انکار کے بعد معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کرنے والے رکن قیس عبدالکریم کو مجبوراً معاہدے کی کاپی انٹرنیٹ پر جاری کرنی پڑی -جس پر عزام احمد کے دستخط موجود تھے –
پارلیمنٹ میں موجودگی آپ کا فطری حق ہے تو پھر یہ کوششیں کیوں ہیں؟
جواب :میں معاملات الجھا ئے بغیر اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہوں- لیکن اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی قسم کے معاہدوں کے بغیر اپنا فطری حق استعمال کروں گا-البتہ اس فیصلے پر عمل درآمد کچھ وقت کے لئے ملتوی کیا گیا ہے –
آپ نے ایک بیان میں کہا کہ آپ نے فلسطینی صدر محمو دعباس سے ملاقات کی اور انہیں آپ کی واپسی پر کوئی اعتراض نہیں – محمود عباس اور آپ کے درمیان کیا گفتگو ہوئی؟
جواب :میں نے محمود عباس سے ملاقات کی- انہوں نے کہا کہ پارلیمانی گروپ جو بھی فیصلہ کریں وہ اسے قبول کریں گے- میں نے پارلیمانی گروپوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے کاپی انہیں بھیجی اور ذاتی طورپر انہیں تین خطوط بھی بھیج چکاہوں لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا-
بہت سے دوسرے فریق بھی ہیں جنہوں نے فلسطینی مجلس قانون ساز کا انکار کیا ؟
جواب :قابض اسرائیلی حکومت نے تو فلسطینی اراکین پارلیمنٹ کو اغوا کرکے جو کچھ کیا لیکن میں بعض عرب ممالک اور فلسطینی گروپوں کو مورد الزام بھی ٹھہراؤں گا جنہوں نے فلسطینی مجلس قانون ساز کے کردار کا انکار کیا- اسی طرح عرب رہنماؤں نے ان اصولوں اور جمہوری اقدار کی خلاف ورزی کی جس کاوہ ظاہری طور پر دم بھرتے ہیں- انہوں نے منافقت کی حمایت کی جس کی وجہ سے انتخابات کے نتائج سے جو کردار ہمیں ملا وہ ہم ادا نہ کرسکے-
نیویارک میں فلسطینی اسرائیلی ،امریکی ملاقات پر آپ کا کیا ردعمل ہے ؟
جواب :امریکی صدر نے جامعہ قاہرہ کے خطاب میں جس موقف کا اعلان کیاتھا وہ اس موقف سے دستبردار ہوچکے ہیں- اسی طرح دیگر ممالک بھی اپنے موقف سے دستبردار ہوگئے ہیں، جس کی وجہ اسرائیل اپنی مرضی تھوپنے میں کامیاب ہو رہا ہے- امریکی صدر نے ہی اپنے موقف سے دستبرداری اختیار نہیں کی بلکہ فلسطینی فریق اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گیا- یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری روکنے کے مطالبے پرکان نہیں دھرا-مقبوضہ بیت المقدس میں جو کارروائیاں کی جا رہی ہیں وہ بھی کمزور فلسطینی سیاسی موقف اور عرب ممالک کی خاموشی کانتیجہ ہے –
فلسطینی انتخابات کے انعقاد یا اسے موخر کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
جواب :سب سے پہلے ذاتی طور پر میری خواہش ہے کہ انتخابات کل نہیں بلکہ آج ہی ہوں – دوسرے نمبر پر میں نئے سیاسی فیصلے کے لئے کسی بھی غیر جانبدار کمیٹی کی تشکیل کا خیرمقدم کروں گا- تیسرے نمبر پر عمومی لحاظ سے انتخابات کے انعقادکے لئے ماحول ساز گار بنایا جانا ضروری ہے – انتخابات کے انعقاد کے لئے آزادی رائے کا اظہار ضروری ہے – سیاسی گرفتاریوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے- ملازمین کے خلاف سیاسی انتقامی کارروائیاں بند ہونی چاہئیں تا کہ انتخابات کو انتخابات کہا جا سکے- ہم ڈیزائن شدہ جمہوریت نہیں چاہتے -ہم حقیقی جمہوریت کے لئے کوشاں ہیں-