عبرانی اخبار”ہارٹز” نے اپنی ویب سائٹ پرجاری رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ محمود عباس نے ایک منصوبے کے تحت اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی میں پیش کی جانے والی گولڈ سٹون کی رپورٹ پر ووٹنگ کی مخالفت کی اور اسرائیل کو قانون کے کٹہرے میں لانے سے بچانے اور اسرائیل کی حمایت کا کردار ادا کیا ہے۔
گولڈ سٹون کی رپورٹ میں غزہ پراسرائیلی حملے کی وجہ سے قابض اسرائیلی حکام کو جنگی مجرم ٹھہرایاگیا ہے جبکہ رپورٹ میں اقوام متحدہ سے سفارش کی گئی ہے کہ وہ اسرائیل کے جنگی جرائم کی مکمل تحقیقات کرے، یہ رپورٹ جمعہ کے روز یو این او کی انسانی حقوق کمیٹی میں پیش کرتے ہوئےممبر ممالک سے اس پر ووٹنگ حانی تھی تاہم اقوام متحدہ میں فلسطینی صدر محمود عباس نے ووٹنگ کی مخالفت کی اور کہا کہ اس اقدام سے فلسطین اسرائیل امن بات چیت متاثر ہوسکتی ہے، محمود عباس کی ووٹنگ مخالف تجویز کے بعد امریکا نے بھی ووٹنگ کی مخالفت کی اور اسرائیل کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا ایک اور موقع ضائع کر دیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ تل ابیب کے خلاف اقوام متحدہ میں ہونے والی کارروائی روکنا واشنگٹن اور رام اللہ کے درمیان ہونے والی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ امریکا نے باقاعدہ طور پر فلسطینی اتھارٹی اور محمود عباس پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ اقوام متحدہ میں ہونے والی اس ووٹنگ کو ملتوی کرائیں۔
اس سلسلے میں محمود عباس اور امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کے درمیان فون پر رابطہ بھی ہوا ہے جس میں امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ نے محمود عباس پر زور دیا کہ وہ گولڈ اسٹون رپورٹ کے اقوام متحدہ کے فورم پر پیش کیے جانے کی صورت میں رپورٹ کے مندرجات پر اتفاق سے انکار کر دیں اور اس کی عالمی ادارے میں ووٹنگ کی مخالفت کریں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیرخارجہ آوی گیڈور لائبرمین گذشتہ کئی دنوں سے مختلف ممالک کے مندوبین اور اہم سرکاری حکام سے ملاقاتوں میں مصروف رہے ہیں، ان ملاقاتوں کا مقصد بھی گولڈ سٹون کی رپورٹ پراسرائیل کی حمایت حاصل کرنا تھا۔ ان ملاقاتوں میں یورپی یونین اور روس کے حکام بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل اپنے ہم خیال ممالک کو اس بات پرقائل کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ وہ گولڈ سٹون کی رپورٹ پر ووٹنگ کی صورت میں وہ غیرحاضر رہیں تاکہ ووٹنگ میں کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اسرائیل کے خلاف کسی کارروائی سے بچا جا سکے۔