شنبه 10/می/2025

انتفاضہ اقصی کے نو سال

جمعرات 1-اکتوبر-2009

اقوام متحدہ کی انسانی حقو ق کی کمیٹی کے مطابق زندگی انسان کا بنیادی حق ہے لیکن قابض اسرائیلی فوج نے شہریوں سے زندگی کا حق بھی چھین لیا ہے- وہ فلسطینیوں کو قتل کرنے کیلئے ہر قسم کی طاقت کا استعمال کر رہی ہے جو عالمی انسانی حقوق کے چارٹر کے شق نمبر تین کی واضح خلاف ورزی ہے اور جنیوا معاہدہ کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں واضح کہا گیا ہے کہ جنگ کے دوران شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے-

اسرائیل کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر پھانسی کی سزا نہیں ہے لیکن فلسطینی شہریوں پر فائرنگ کرنے اور انہیں قتل کرنے کے لیے اسرائیلی قانون میں نہ صرف گنجائش موجود ہے بلکہ فلسطینی شہریوں پر فائرنگ کو مکمل طور پر قانونی حق حاصل ہے- قابض اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو اس بناء پر نشانہ بناتی ہے کہ وہ مشکوک تھے-

مشکوک افراد پر فائرنگ کرنے کے حوالے سے اسرائیلی فوجی اہلکار بین الاقوامی قوانین کے معیار سے تجاوز کر جاتے ہیں- بین الاقوامی قوانین میں جو اصول اور طریقہ بیان کیا گیا ہے اسرائیلی فوج اس پر نہیں چلتی- بین الاقوامی قانون کیمطابق اشد ضرورت کی صورت میں شہری پر گولی چلائی جائے گی- عالمی قوانین کے مطابق جب کسی شخص سے دوسروں کی جانوں کا خطرہ لاحق ہو اس وقت اس پر گولی چلائی جائے-

انسانی حقوق کے عالمی ادارے التضامن نے رپورٹ جاری کی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ انتفاضہ اقصی کے بعد 28 ستمبر2000 سے رواں سال ستمبرکے آخر تک اسرائیلی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے فلسطینیوں کی تعداد 7699 تک پہنچ گئی ہے-جن میں 460 خواتین اور 1923 بچے شامل ہیں جن کی عمریں اٹھارہ سال سے بھی کم ہیں-

عالمی ادراہ تضامن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ میں انتفاضہ اقصی کے دوران شہید ہونے والوں کی تقسیم درج ذیل ہے-

انتفاضہ اقصی کے شروع ہونے کے بعد 2000ء کے آخر تک 321 فلسطینی شہید ہوئے جن میں 113 بچے اور گیارہ خواتین شامل تھیں-

2001ء میں580 فلسطین شہید ہوئے جن میں 235 بچے اور 23 خواتین شامل تھیں-

2002ء میں 1121فلسطینی شہید ہوئے جن میں 238 بچے اور 104خواتین شامل تھیں-

2003ء میں 706 فلسطینی شہید ہوئے جن میں 159 بچے اور 31 خواتین شامل تھیں-

2004ء میں 959 فلسطینی شہید ہوئے جن میں262 بچے اور 38 خواتین شامل تھیں-

2005ء میں 294 فلسطینی شہید ہوئے جن میں87 بچے اور 12خواتین شامل تھیں-

2006ء میں 759 فلسطینی شہید ہوئے جن میں 161بچے اور 79 خواتین شامل تھیں-

2007ء میں 465 فلسطینی شہید ہوئے جن میں 57 بچے اور 9 خواتین شامل تھیں–

2008 ء اور 2009ء کے دو سالو ں میں 2494 فلسطینی شہید ہوئے جن میں 614 بچے اور 143خواتین شامل ہیں- فلسطینی شہداء کی تعداد بڑھنے میں غزہ جنگ کا بہت بڑا ہاتھ ہے-

غزہ پر تئیس روزہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں1460فلسطینی شہید ہوئے جن میں 437 بچے اور 116خواتین شامل تھیں-غزہ جنگ کے دوران قابض اسرائیلی فوج نے مسلسل تئیس روز تک غزہ پر آتش وآہن کی بارش کی- غزہ کی تباہی میں اہم کردار اسرائیلی فضائیہ نے اداکیا-

ذرائع کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے اپنے اسلحے کا تہائی سے زائد حصہ غزہ پر استعمال کیا- اسرائیلی فوج نے اس جنگ کے دوران نہ صرف سینکڑوں شہریوں کو شہید کیا بلکہ فلسطینیوں کو بلاجواز براہ راست فائرنگ کا بھی نشانہ بنایا – انسانی حقوق کی تنظیموں نے جنگ کے دوران فلسطینیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیے جانے کے متعدد واقعات ریکارڈ کیے ہیں-

متعدد ایسے خاندان ہیں جن کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے-انسانی حقوق کے مطابق قابض اسرائیلی فوج نے سفید فاسفورس اور دیگر ممنوعہ اسلحہ کا بے دریغ استعمال کیا-

جنگ کے دوران ہزاروں گھروں، اسکولوں، کالجز،یونیورسٹیوں،ہسپتالوں، مراکز صحت، پولیس اسٹیشنوں اور مساجد کو تباہ کیا گیا-تباہ شدہ عمارتوں میں اقوام متحدہ کے دفاتر بھی شامل تھے-بجلی اور پانی کا نظام تباہ کر دیا گیا-

غزہ پر تئیس روزہ اسرائیلی جارحیت کے دوران 115عمر رسیدہ افراد،5 صحافیوں ، ریسکیوکے بارہ افراد ، شہر دفاع کے شعبہ کے گیارہ اہلکار اور طبی خدمات ادا کرنے والے عملے کے نو ارکان کو شہید کیا گیا-ان میں تین ڈاکٹر اور دو نرسیں بھی شامل ہیں جبکہ اسرائیلی جارحیت کانشانہ بننے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد دو سو تیس رہی-

عالمی ادارہ التضامن برائے انسانی حقوق نے رپورٹ کے آخر میں فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیلی فوج کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے – رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کیخلاف قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے انسانی حقوق کے خلاف ورزیاں جاری ہیں-

عالمی اداراے نے انسانی حقوق کی تمام تنظیموں اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ شہریوں کی حفاظت کے عالمی قانون پر عمل درآمد کیلئے اسرائیل پر دباو ڈالے۔ جنگ کی صورت میں شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے-

مختصر لنک:

کاپی