مغربی کنارے میں رفاہی اور عوامی بہبود کے لیے کام کرنے والے اداروں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے، ان این جی اوز کی جانب سے روزانہ نمازوں کے اوقات میں مساجد میں فنڈ ریزنگ کے لیے مہمات چلائی جاتی ہیں۔ بینرز اور اشتہارات شائع کیے اور لوگوں تک پہنچائے جاتے ہیں۔
چنانچہ یہ کیفیت فلسطین بالخصوص مغربی کنارے میں گذشتہ کئی برسوں سے شہری دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ غربت اور پسماندگی کے باوجود شہریوں نے مخیر تنظیموں کی ہمیشہ دل کھول کرمدد کی۔ تاہم جب سے مغربی کنارے میں ان خیراتی تنظیموں کو محمود عباس کے زیرکمانڈ ملیشیا اور فتح نے اپنے کنٹرول میں لیا ہے عوام کی جانب سے ان پراعتماد ختم ہوکررہ گیا ہے۔ مساجد میں اب بھی چندے کے لیے باعدگی سے اعلان ہوتے ہیں تاہم جس طرح پہلے شہریوں کی جانب سے توجہ اور دلچسپی کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا تھا، اب اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ امام اور خطیب بھی اگر اعلان کرے تو شہری چپکے سے نماز کے بعد اٹھ کرچلے جاتے ہیں اور اس طرح کے اعلان پرکوئی توجہ نہیں دیتے۔
شہریوں کی جانب سے خیراتی اداروں پرعدم اعتماد کے حوالے سے مرکز اطلاعات فلسطین نے شہریوں کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کی، جس شہریوں نے بتایا کہ محمود عباس ، ان کی جماعت فتح، اور ان کے زیرکمانڈ سیکیورٹی فورسز کا کردار نہایت مشکوک ہے، شہری انہیں اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ اپنے حلال کی دولت سے عباس ملیشیا کے زیرانتظام خیراتی اداروں کی مدد کریں، کیونکہ انہیں یہ معلوم نہیں کہ ان کی دی ہوئی کہاں اور کس مقصد پرخرچ کی جائے گی۔
فتح چوروں کا گروہ ہے:
ایک نمازی سے جب پوچھا گیا کہ آیا وہ فتح کے زیرانتظام یتیموں اور بیواؤں کی امداد کے لیے قائم اداروں کی مالی مدد کرتے ہیں تو شہری کا کہنا تھا کہ فتح چوروں کا گروہ ہے، انہیں یہ معلوم نہیں کہ فتح کو دی ہوئی رقم کس مصرف پرخرچ کی جائے گی۔ ہمیں اس امر کی ضمانت کون دے گا کہ یہ رقم واقعی یتیموں اور غریبوں پرخرچ کی جاتی ہے۔
ایک دوسرے شہری نے کہا کہ محمود عباس کے زیرکمانڈ سیکیورٹی فورسز کی بے رحمی ایک ضرب المثل بن گئی ہے، اب کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو یہ سمجھے کہ عباس ملیشیا کی این جی اوز بچوں اور ضرورت مندوں پر رحم کھاتی ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان اداروں کو کسی قسم کی امداد نہیں دیتے۔
مغربی کنارے میںجب سے فتح نے اقتدار سنھبالا ہے یہاں پراسلامی فلاحی تنظیموں پرپابندی عائد کردی گئی ہے جس کے باعث ہزاروں کی تعداد میں یتیم بچے، بیوائیں اور غریب شہری بنیادی وظائف سے محروم ہوگئے ہیں۔ یہ ساری صورت حال فلسطینی شہریوں کے سامنے ہے بھلا ایسے میں کون ہے جو ان چوروں کی مدد کو ترجیح دے گا۔ ایک نمازی کا کہنا تھاکہ اہل خیر اب انفرادی طورپر لوگوں کی مدد کو ترجیح دے رہے ہیں۔
عام اہل خیر حضرات کے علاوہ مغربی کنارے کے بڑے بڑے تاجر بھی فتح اور عباس ملیشیا پرعدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل فتح کے زیرانتظام اداروں کو مالی سپورٹ کرنے والے تاجر بھی موجودہ حالات میں عباس ملیشیا کی کارروائیوں سے نالاں ہیں، جس سے فتح کے ساتھ بھی ان کی نفرت بڑھ گئی ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین نے مغربی کنارے میں جب تاجر برادری سے فتح کے زیرانتظام اداروں کی مدد اور انہیں چندہ فراہم کرنے کے بارے میں معلومات لینا چاہیں تو بمشکل ایک فیصد شہریوں نے فتح پراعتماد کا اظہار کیا اور انہوں نے بھی کئی قسم کے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا۔
ایک تاجر کہا کہنا تھا کہ فتح اور صدر محمود عباس کے زیرانتظام اداروں کی طرف سے فنڈ ریزنگ کے لیے غیرقانونی ہتھکنڈے بھی اختیار کیے جاتے ہیں، انہوں نے حیرت کااظہار کیا کہ وہ پوری کوشش کے باوجود صرف چند ہزار ڈالر سالانہ کماتے ہیں اور فتح کے خیراتی ادارے مہینوں میں ملینز کے حساب سے ڈالر اکھٹے کر لیتے ہیں، تاہم بات یہ ہے کہ اتنی خطیر رقم آخر جاتی کہاں ہے، کیا وہ واقعی مستحقین تک پہنچ جاتی ہے۔