مقبوضہ فلسطین کی فلسطینی قیادت کے خیال میں منصوبے کا مقصد تنازعہ کو پہلی شکار گاہ میں لانا اور فلسطینیوں کے ایک مؤقف نہ ہونے کے تناظر میں تصفیہ کو بعید از امکان قرار دینا ہے- اسرائیلی پارلیمنٹ میں ’’متحدہ عرب گروپ‘‘ کے سربراہ ابراہیم عبد اللہ نے کہا ہے کہ اسرائیل قیام امن میں سنجیدہ نہیں وہ امن نہیں تنازعہ چاہتا ہے-
ابراہیم عبد اللہ نے کہا کہ اسرائیل اور امریکا کے درمیان دو طرفہ اسٹریٹجک مفادات اور مسلمانوں کی کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بعید از امکان ہے کہ امریکی صدر براک اوباما مسئلے کا کوئی ایسا حل نکال سکیں جو فلسطینی عوام کو قابل قبول ہو- اسرائیل مقبوضہ مشرق بیت المقدس پر قبضے اور مغربی کنارے میں یہودی آبادیوں کو قائم رکھنے کے مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے تو فلسطینی ریاست کے لیے باقی کیا بچا ہے-
پرفریب چال:
امریکی منصوبہ انتہا پسند اسرائیلی وزیر خارجہ اویگڈور لائبرمین کے منصوبے کے قریب تر ہے جو تنازعے کے حل کے امکان کی نفی اور اس کے لیے مزید سولہ برسوں کی ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے-
امریکی اور صہیونی مؤقف میں قربت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جو بھی امریکی جادوائی حل پر یقین کرے گا اسے ناامیدی ہوگی- سعید نفاع نے واضح کیا کہ صہیونی غاصبانہ پالیسی کی روشنی میں حقیقی فلسطینی ریاست کا قیام ممکن نہیں- فلسطینی ریاست ہمیشہ اسرائیل کے ذہن میں سیکورٹی خطرہ رہے گی- یہی وجہ ہے کہ وہ نسل پرستانہ نظام کی طرف جارہا ہے-
مسئلہ فلسطین کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا:
اسرائیلی پارلیمنٹ میں ’’عرب تحریک برائے تبدیلی‘‘ کے رکن احمد طیبی نے واضح کیا ہے کہ اوباما کے منصوبے میں جو کچھ ہے اور جو کچھ لایا جائے گا وہ کسی بھی فلسطینی رہنماء یا جماعت کے لیے مسترد ہے-
انہوں نے مزید کہا کہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر دائیں بازو اور بائیں بازو دونوں جماعتوں کی حکومتوں میں جاری ہے- امریکی صدر کی یہ تجویز کہ یہودی آباد کاری روکنے کے تبادلے میں مسلمان ممالک اسرائیل سے تعلقات قائم کرلیں مسئلہ فلسطین اور امت مسلمہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا ہے-