گزشتہ ہفتوں کے دوران مسلسل اس طرح کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ متعدد عرب ممالک بنیامین نیتن یاہو کی انتہاپسند اسرائیلی حکومت سے تعلقات معمول پر لانے کو تیار ہیں- ان اطلاعات کے مطابق بعض نامعلوم عرب ریاستوں نے امریکا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کیلئے وہ چند مثبت اشارے دینے کو تیار ہیں- مثلاً یہ کہ اسرائیل طیاروں کو عرب ممالک کی فضا میں استعمال کرنے‘ وہاں لینڈ کرنے اور تیل ڈلوانے کی اجازت ہوگی اور اسرائیلی حکام‘ تاجروں اور عام اسرائیلی شہریوں کو ان ممالک میں نے کیلئے داخلہ پاس جاری کئے جائیں گے-
ان مثبت اشاروں کا مطلب یہی ہے کہ امن کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے امریکی کوششوں کو کامیاب بنانے کا موقع دی اجائے- اس گھناونے کھیل کی تازہ ترین پیشرفت یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نے حال ہی میں ایک عرب ریاست جوقیاس یہی ہے کہ کوئی خلیجی ریاست ہے اس کا خفیہ دورہ کیا ہے- برطانیہ کے زیرنگین رہنے والی ان ریاستوں کے چند شاہی خانزادے جو اب امریکا کے زیراثر ہیں-
انہوں نے اوبامہ انتظامیہ کو اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے ضمن میں بولڈ سٹیپ لینے پر رضامندی ظاہر کی ہے تاہم یہ بتانے کی ہرگز ضروری نہیں کہ اسرائیلی حکومت کے رویئے بالخصوص صیہونی تعمیرات کا سلسلہ جاری رہنے اور مغربی کنارے و مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینیوں کی زمین ہتھیائے جانے کے باعث اس مہم کو بیشتر عرب ممالک میں پذیرائی نہیں مل سکی اور اس کے خلاف ہیں سچ تو یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت نے حال ہی میں تمام مقبوضہ علاقوں میں سینکڑوں نئے گھر بنانے کیلئے ٹینڈر جاری کرکے آزاد فلسطینی حکومت کے امکانات مزید کم کردیئے ہیں-
صیہونی حکومت کے اس فیصلے کو نہ صرف اوباما انتظامیہ کی امن کاوشوں سے متصادم قرار دیا جا رہا ہے بلکہ اسے عرب ممالک کے مثبت اشاروں کے جواب میں نہایت منفی اقدام تصور کیا جا رہا ہے- صاف ظاہر ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ان مثبت اشارے دینے والے عرب ممالک کی جو تذلیل و تحقیر کی جا رہی ہے وہ اس کے مستحق ہیں کیونکہ جو لوگ آپ اپنی عزت نہیں کرتے وہ اس قابل نہیں کہ دوسرے ان کی عزت کریں- اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ غلامانہ ذہنیت کے حامل عرب حکمران صیہونی اقدامات کے جواب میں اپنا شرمناک طرزعمل تبدیل کریں چاہے ان کے شرم آلودہ چہروں پر کتنا ہی کیچڑ اچھال کر ان کی تحقیر کی جائے-
اس کی وجہ سالہا سال سے ایک کی پوجا کرتے ان حکمرانوں کی یہ سوچ ہے کہ حالات خواہ کیسے بھی ہوں امریکا سے موصول ہونے والی ہدایات و احکامات پر بغیر کسی ردوبدل کے بلا چون و چراں عملدرآمد کیا جائے- ان عرب رہنماوں کو کیا کہا جائے جو خود کو محمد عربی کا پیروکار تو کہلاتے ہیں مگر اس صیہونی ریاست کی امداد دل کھول کر کرتے ہیں جو نازی حکومت کی طرح فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے- یہاں تک کہ فاحشہ عورتیں بھی ان کے مفادات سے بخوبی آگاہ ہیں اور ان بازاری عورتوں کو بھی معلوم ہے کہ صیہونی ریاست سے تعلقات معمول پر لانے کی بات کرنے والے عرب رہنماوں کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں- میری دانست میں یہ تاحیات بادشاہ‘ شہزادے اور صدور یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو خوش کرنے کیلئے جو مرضی کرلیں یہ صیہونی حکومت نازی ادوار کے طرز پر فلسطینیوں پر ظلم و ستم سے باز آئے گی‘ مجرمانہ روش سے دستبردار ہوگی اور نہ امن کی راہ اختیار کرے گی جب وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیلی ان کی کوئی بات خاطر میں نہ لائے گا تو پھر وہ اپنے آپ اور اپنے ممالک کی عوام کو اپنے مقام سے گرانے کیلئے امریکی احکامات کی تعمیل کیوں کرتے چلے جا رہے ہیں؟ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ جاہل اور ظالم عرب حکمران عوام کے مختلف نمائندے نہیں لہذا وہ خود کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھنا تو درکنار عوامی ذمہ داریوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے چنانچہ ان کا خیال ہے کہ وہ طاقت کے ناروا استعمال‘ اختیارات کے ناجائز اطلاق اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے بارے میں پریشان ہوئے بغیر اپنی جاہلانہ خواہشات کے مطابق فیصلے کرسکتے ہیں کیونکہ ان بشمول بغاوت کے کسے خطرے کا سامنا نہیں-
علاوہ ازیں اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کی گھسی پٹی اصطلاح کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ کلنٹن دور میں اسے بخوبی آزمایا جاچکا ہے جب مغرب سے خلیج کے شیخین تک تمام عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کیلئے مسکین بھیڑ بن گئے مگر اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا- کیا اس کے نتیجے میں اسرائیل نے فلسطینیوں کا خون بہانا چھوڑ دیا؟ کیا اس کے نتیجے میں فلسطینیوں کے گھر گرائے جانے کا سلسلہ ترک کیا یا پھر یہودی آبادکاروں کیلئے تعمیرات کا سلسلہ ترک کردیا گیا؟ ہم سب ان سوالوں کے جواب اچھی طرح جانتے ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کے بعد اسرائیلی مظالم میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہوگیا اور اس کے بعد ہی اسرائیل نے غزہ میں کشاد خون کے دوران ان ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کردیا جس کا قصور صرف اور صرف یہ تھا کہ وہ بے یارومددگار تھے اور ان کی حفاظت کے لئے کوئی مضبوط اور طاقتور ریاست موجود نہ تھی-
ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ اسرائیل عرب ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے معاملے کو ایک چال سمجھتا ہے جس کے تحت اسے یہودیوں کی تعمیرات کیلئے مزید وقت مل سکے- اسرائیل نازی وحشت اور صیہونی منافرت کا مجموعی ہے لہذا یہ صرف اور صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے چنانچہ اب ان نام نہاد حکمرانوں کو یہ احساس ہوجانا چاہیے کہ ان کے احمقانہ ’’مثبت اشاروں‘‘ سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا اور اسرائیل ان کو ایسے بے وقوف لوگ سمجھتا ہے جن کی اپنی کوئی رائے نہیں اور جو شرف انسانیت کے ماتھے کا کلنک ہیں تو ٹھیک ہے میں تو ان ریمارکس پر اسرائیل کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا-