عثمان کو گرفتار ہوئے 18 برس بیت چکے ہیں جبکہ اس سے چھوٹے معاذ کو بھی تقریبا اتنا ہی عرصہ ہونے کو ہے، باقی دونوں بھی کئی ماہ سے جیلوں میں بند ہیں۔ گھر کے ان چراغو سے خالی مکان میں ام بکر اور اس کا عمر رسیدہ شوہر سعید بلال بکر کی آنکھیں بیٹوں کی راہ دیکھتے دیکھتے سفید ہو چکی ہیں تاہم وہ مایوس نہیں بلکہ اللہ پے مکمل بھروسہ کرکے اپنے بیٹوں اور تمام فلسطینی اسیروں کی رہائی کے لیے دعا گو رہتے ہیں۔
والدین نےاپنے بچوں کی تربیت شروع ہی سے اس انداز میں کی کہ سن شعور کو پہنچتے ہی انہوں نے خود کویہودیوں کے تسلط میں جکڑا پایا تو انہوں نے اسرائیل جبرو تسلط اور ظلم کو خاموشی سے برداشت کرنے کے بجائے جدو جہد آزادی میں باضابطہ حصہ لینا شروع کر دیا۔
عثمان اپنی جرات اور بہادری کی وجہ سے حماس کا ایک مقامی کمانڈر بن کر ابھرا،اسے کئی بار اسرائیلی فوج نے گرفتار اور رہا کیا تاہم آخری بار جب اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی تو اس کے بعد اپنی ماں سے جو خدا رسول اور دین کے بعد اس کی سب سے پیاری متاع ہے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے کام اور زندگی سے مایوس نہیں بلکہ اس پر فخر کرتے ہیں، انہوں نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے اس کی منزل نہایت بلند مرتبہ ہے اور وہ شہادت کے متمنی ہیں جو ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے۔
عثمان کے ایک دوست نے جیل میں اس سے ملاقات کہا کہ تم نے مزاحمت کا راستہ اختیار کرکے اپنا مستقبل تباہ کر دیا، اس پراس کا جواب تھا کہ” ایک غلام کا کوئی مستقبل اور کیریئر نہیں ہوتا” انہوں نے مزید کہا کہ جیل میں بیٹوں سے ملنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی، اسرائیل نے انہیں ایک کارڈ دے رکھا جس کے تحت اسیروں سے ملاقات کے لیے کئی ماہ کا وقفہ درج کردیا جاتاہے۔ ملاقات کا وقت بھی نہایت مختصر ہوتا ہے اور ابھی بات شروع نہیں ہوتی کہ پہلے ہی واپس جانے کے احکامات آ جاتے ہیں۔
دوسری جانب اسٹڈی سینٹر برائے حقوق اسیران نے ام بکر سے ملاقات کی اور بیٹوں کی جدائی کے بارے میں گفتگو کی۔ اسیران کی ماں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "باقی وقت تو کسی نہ کسی طرح گذر ہی جاتا ہے لیکن جب رمضان آتا ہے تو بیٹوں کی یاد بہت ستاتی ہے، افطاری کے اوقات میں جب افطاری کے لیے مختلف قسم کی چیزیں دسترخوان پر موجود ہوتی ہیں لیکن پانی کا ایک گھونٹ اور کھانے کا ایک لقمہ بھی حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ بیٹوں کےبغیر 18 رمضان گزار چکی ہوں اور اب حالت یہ ہے کہ ہمت جواب دے رہی ہے۔ بیٹوں کے بغیر گھر میں سب کچھ ہونے کے باوجود گھرسنسان اور ویران لگتا ہے”۔
انسانی حقوق کی تنظیم کے مندوب فواد خفش نے بتایا کہ شیخ سعید بلال بکر کا خاندان فلسطین کے ان چند خاندانوں میں سے ایک ہے جنہیں اسرائیلی حکومت کی جانب سے سب سے زیادہ اذیت کا نشانہ بنایاگیا، اس خاندان کے افراد کو بھی مسلسل گرفتار کیا جاتا رہا، خود شیخ بلاک بکر کو بھی کئی دفعہ گرفتار کیاگیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج اور جیل حکام فلسطینیوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر اور ان کے اہل خانہ کو دکھ دے کر راحت اور لذت حاصل کرتے ہیں۔ اور یہ ان کا ایک دل پسند مشغلہ ہوچکا ہے۔