جمعه 09/می/2025

حرم ابراھیمی میں یہودی دہشت گردی کے سولہ سال

اتوار 6-ستمبر-2009

رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ فلسطینی عوام بالخصوص الخلیل کے شہریوں کے لیے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ آج سے سولہ سال قبل 15 رمضان المبارک 1414 ھجری بمطابق 25 فروری 1994ء کو الخلیل شہر کے روز دار نماز فجر کی ادائیگی کےبعد حرام ابراہیمی سے باہر نکل رہے تھے کہ د روازے  پرکھڑے مسلح  "باروخ گولڈ شٹائن” نامی ایک دہشت گرد یہودی نے حرم میں داخل ہوکر اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں 29 نمازی شہید اور 350 زخمی ہوگئے تھے۔
 
دہشت گردی کا یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں ہواتھا جب اسرائیلی فوج چند میٹر کے فاصلے پر ناکہ  لگائے نماز کے لیے حرم ابراہیمی میں آنے والے شہریوں کو روکنے میں مصروف تھی۔

یہودیوں کی سفاکیت کی تاریخ میں یہ واقعہ بھی سیاہ روشنائی میں لکھا جائے گا، دنیا کو شائد وہ واقعہ یاد نہ ہولیکن اس ہولناک دہشت گردی کا نشانہ بننے والے اہل الخلیل کے ذہنوں میں  یہ اب بھی تازہ ہے۔ اس واقعے کے بعد مقامی یہودی آباد کاروں اور مسلمان شہریوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں شہدا کی تعداد 50 تک پہنچ گئی تھی۔

حملہ آور دہشت گرد کو کئی نمازی جانتے تھے کیونکہ انہوں نے نمازوں کے اوقات میں اسے متعدد مرتبہ حرم ابراھیمی کے قرب و جوار میں گھومتےپھرتے دیکھا تھا۔ گولڈ شٹائن دہشت گرد یہودی جماعت "کاخ” کے ایک مذہبی مدرسے میں زیر تعلیم تھا اور وہیں سے اس نے دہشت گردی کی تعلیم حاصل کی تھی۔

واقعے کے بعد اسرائیل کا ظالمانہ اوراستعماری رویہ

حرم ابراھیمی میں قتل عام کے بعد اسرائیل ان کی غیر جانب دارانہ تحقیقات اور دہشت گرد یہودی کو قرار واقعی سزا دینے کے بجائے الٹا فلسطینی عوام پرمظالم کا ایک نیا باب کھول دیا۔حرام ابراہیمی کو نمازیوں کے لیے بند کردیاگیا، شہر میں موجود تمام رفاعی اداروں کے دفاتر کی تالہ بندی کے ساتھ تمام تعمیراتی فرموں پر بھی پابندی لگادی گئی ۔
 
اسرائیل کے اس ظالمانہ فیصلے سے نہ صرف ہزاروں افراد بے روز گار ہوئے بلکہ شہداء کے سینکڑوں خاندان ،یتیم بچے اور بیوائیں انہیں مخیر اداروں کی جانب سے ملنے والی امداد سے محروم کردی گئیں۔ شہر میں سرکاری سطح پرکام کرنے والے محکمہ اوقات کو بھی بندکردیاگیا۔ کئی بازاروں اور تجارتی مراکز کو فوجی چھاؤنیوں میں بدل دیا گیا ہے۔ اس ساری صورت حال سے یہ سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ یہ سارا کھیل اسرائیل نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جس کا مقصد حرم ابراھیمی پر قبضہ کرنا تھا۔

2005ء میں حرم ابراہیمی کا ایک حصہ الخلیل کے شہریوں کے لیے کھولا گیا تاہم اس کا ایک تہائی حصہ یہودیوں کے تصرف میں دے دیاگیا۔ حرم کے پانچ میں چار دروازوں سے مسلمانوں کے داخلے کی اجازت دی گئی جبکہ پانچواں دروازہ یہودیوں کے لیے مخصوص کردیاگیا۔ اس کے علاوہ سال میں نو دن حرم ابراھیمی میں مسلمانوں کے داخلے پراس لیے پابندی لگادی گئی کہ یہ ان ایام یہودی عید کی تقریبات مناتے ہیں۔
 
مذہبی تقریبات کی آڑ میں یہودی جو گھناؤنا کھیل اس مقدس مقام میں کھیلتے ہیں وہ بھی ناقابل بیان ہے۔ سابق صدر یاسر عرفات کے دور میں الخلیل شہر کو فلسطینی اتھارٹی کاحصہ قراردیاگیا تاہم حرم ابراہیمی پریہویوں کی بالادستی بدستور قائم ہے۔ شہر کے فلسطینی اتھارٹی کے زیر کنٹرول ہونے کے باوجود مقامی شہریوں کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آسکی۔

مختصر لنک:

کاپی