سچ تو یہ ہے کہ غیرملکی قابض فوج کے زیرانتظام ہونے والے انتخابات سے بھلائی یا بہتری کی توقع رکھی ہی نہیں جا سکتی- 2006ء میں بش انتظامیہ نے فلسطینی عوام کو یہی کہہ کر عام انتخابات کے ذریعے بے وقوف بنایا تھا کہ یہ الیکشن فلسطینی عوام کی خودمختاری کی جانب پیشرفت کا باعث بنیں گے جس پر بہت سے فلسطینیوں نے اسرائیلی گماشتوں پر مشتمل ’’نازی حکومت‘‘ اور فتح کے زیر اثر کام کرنے والی فلسطینی اتھارٹی کی بدعنوانی سے نجات کا ذریعہ سمجھ لیا اور شک کا فائدہ دیکر ان انتخابات میں حصہ لیا جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ انتخابات ہوئے اور حماس نے ان میں تاریخی کامیابی حاصل کی مگر اسرائیل‘ امریکا اور فتح میں سے کسی نے بھی ان انتخابات کے جمہوری نتائج کو تسلیم کیا-
اسرائیل نے تو انتخابات کے ابتدائی نتائج میں ہی حماس کی برتری دیکھ کر مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر پابندیوں اور خوفناک سزاوں کی بھرمار کردی اور 15 لاکھ فلسطینیوں کا محاصرہ کرکے ان کے لئے خوراک و بنیادی ضروریات کا حصول ناممکن بنا دیا گیا- اسی طرح صیہونیت کے پنجے میں جکڑے امریکا نے بھی اپنے دائرہ اثر سے باہر والے چند ممالک کو چھوڑ کر باقی سب ممالک کو حماس کی منتخب جمہوری حکومت کا بائیکاٹ کرنے پر آمادہ کرلیا-
عالمی صیہونی حلقوں کی ایماء پر امریکا اور اس کے متکبر اتحادیوں نے غزہ کی پٹی کو رقوم کی منتقلی روک معاشی بحران پیدا کردیا- اس ظالمانہ محاصرے کے نتیجے میں غزہ میں سخت بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی اور طبی سہولیات کی عدم موجودگی کے باعث غزہ کے سینکڑوں معصوم شہری مختلف امراض میں مبتلا ہوگئے- علاوہ ازیں امریکی انٹیلی جنس اداروں نے فتح کو فنڈز اور اسلحہ دینا شروع کردیا تاکہ حالات خراب کرکے حماس کی جگہ ایک ایسی حکومت لائی جائے جو صیہونی شرائط پر اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کرلے-
خوش قسمتی سے حماس نے عاقبت اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس گھناونی سازش کا بروقت ادراک کرلیا کہ اسرائیلی مفادات کیلئے خانہ جنگی کے حالات پیدا کرکے فلسطینیوں کا خون بہانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں- سابقہ تجربات کی روشنی میں یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ محمود عباس کے پاس اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اسرائیل ان انتخابات پر اثرانداز نہیں ہوگا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ جس الیکشن کی منظوری خود اسرائیل اور امریکا نے دی تھی اس میں حصہ لینے کے ’’سنگین جرم‘‘ کا ارتکاب کرنے اور کامیابی حاصل کرنے والے بیشتر اسلام پسند رہنما تو اب بھی اسرائیلی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں-
میں ان لوگوں کی بات کررہا ہوں جنہوں نے ماسوائے الیکشن جیتنے کے کوئی جرم نہیں کیا مثلاً نائف راجوب‘ محمدابوجہیشی‘ عزام صلحاب‘ نظار رمضان اور ان جیسے بیسیوں فلسطینی سیاستدان جو فلسطینی دستور ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے-
فلسطینی سرزمین کے چپے چپے پر پھیلی قابض اسرائیلی فوج جس نے گزشتہ انتخابات میں بھرپور مداخلت کی اور حماس کی سخت دشمن ہے کیا اس سے اور ریاستی پولیس سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات کا شفاف انعقاد ہونے دیں گے؟ جب بنیادی سول آزادیاں ہی نہ ہوں سیاسی مخالفین کو گرفتار کرکے انہیں غیرقانونی حراست میں رکھا جاتا اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہو ایسے میں شفاف انتخابات کا انعقاد کیسے ممکن ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ حماس غیرملکی آشیرباد اور اسرائیلی تعاون پر مبنی محمود عباس کی اس ناجائز خواہش کو کبھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچنے دے گی کیونکہ اسرائیل نے غزہ کا مجرمانہ محاصرہ کررکھا ہے اور تعمیراتی سامان بھی اندر نہیں جانے دیا جا رہا- یہ بتانے کی تو قطعاً ضرورت نہیں کہ رواں سال کے آغاز میں اسرائیلی جارحیت کے دوران تباہ ہوئے انفراسٹرکچر کی بحالی کے لئے تعمیراتی سامان کی اشد ضرورت ہے-
بدقسمتی سے محمود عباس اور ان کی پی ایل او اور حماس کی مشکلات بڑھانے کے لئے غزہ کا محاصرہ جاری رکھنے کی سازشوں میں لگاتار سرگرم کردار ادا کررہے ہیں- ان تمام وجوہات کی بنا پر حماس کو چاہیے کہ اس جال میں نہ پھنسے اور اس شخص کی چال ناکام بنا دے جو تحریک مزاحمت کو بے سود قرار دے چکا ہے اور فلسطینیوں کے حق واپسی اور القدس شریف کی آزادی کے معاملے پر سمجھوتہ کرنے کو تیار ہے کیونکہ حضرت محمدمصطفی نے فرمایا ہے ’’مومن ایک ہی سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا‘‘-