چهارشنبه 30/آوریل/2025

پی ایل او کا فلسطینی قومی ایجنڈے سے کھلواڑ

ہفتہ 29-اگست-2009

الفتح سے منسلک فلسطینی تحریک  آزادی (پی ایل او) اور فلسطینی اتھارٹی کی قیادت سے ایک عرصہ سے متواتر تردیدوں کے باوجود دانستہ طور پر ایک ایسا مؤقف اختیار کئے ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق سے دستبردار ہونا پڑے گا بلکہ مسئلہ فلسطین بھی سردخانے کی نذر ہوجائے گا-

اگر پی ایل او فلسطینیوں کے حقوق سے دستبرداری پر مبنی منافقانہ امن منصوبوں پر ’’مثبت طرزعمل‘‘ کا تقاضا کرتی ہے تو بجا طور پر تمام محب وطن فلسطینیوں کو اس بات پر تشویش ہونی چاہیے کیونکہ فلسطین ان غیرمنتخب سیاستدانوں کی ملکیت بہرحال نہیں ہے جوفلسطینیوں کے حق واپسی اور مقبوضہ بیت المقدس کا قبضہ ختم کرائے جیسے بنیادی معاملات پر بات کئے بغیر سمجھوتہ کرنے کا اپنا حق سمجھتے ہیں-
 
بدقسمتی سے پی ایل او اور فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے جو اشارے اور علامات ظاہر ہو رہی ہیں وہ اچھے مستقبل کے غماز نہیں- لہذا اس معاملے پر فوری اظہار اور ان غیرمنتخب سیاستدانوں کو یہ الٹی میٹم دینا اشد ضروری ہے کہ وہ  آگ سے نہ کھیلیں- اس قسم کا پہلا اشارہ تو اسرائیل کے زیرتسلط ایک ایسی فلسطینی ریاست کے قیام پر مبنی نام نہاد ’’فیاض ویژن‘‘ ہے جس میں عارضی سرحدات ہوں گی اور یہ ریاست یورپ کی نازی حکومتوں کے زیرنگیں بننے والی صیہونی ریاست جیندرات کے شابہ ہوگی-
 
بھلا کوئی شخص کسی ایسی ریاست کی حمایت کیسے کر سکتا ہے جس میں مکمل خودمختاری  و آزادی ہو نہ ریاست کے دیگر بنیادی لوازمات؟ معیشت سے سیاست کا رخ کرنے والا فیاض واشنگٹن میں لیکچر دیتے ہوئے خیال کرتا ہے کہ عالمی برادری کے تعاون سے صرف معیشت مضبوط کرکے ہی خوابوں کو حقیقت بنایا جاسکتا ہے- لیکن خود کو فلسطین میں بش کا آدمی کہلانے والا یہ شخص یہ نہیں بتاتا کہ اسرائیلی تسلط کی موجودگی میں ایک آزادانہ اور خودمختار ریاست کا قیام کیسے ممکن ہے؟ کیا مسٹر فیاض کو اس بات کا احساس نہیں کہ ان کے دارالحکومت رام اللہ سے دیگر فلسطینی علاقوں میں جانے کیلئے اسرائیلی اجازت نامہ درکار ہوتا ہے؟ وہ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ مقبوضہ فلسطین سے بیرون ملک منتقلی یا بیرون ملک سے فلسطین منتقلی کی معمولی سی رقم پر بھی اسرائیلی قبضہ حرف آخار ہوتا ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ اسرائیل کی مرکزی سکیورٹی ایجنسی شن باتھ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کس فلسطینی کو ملک سے باہر جانے کی اجازت ہے اور کس کو نہیں؟ اور پھر کیا فیاض فلسطینی عوام کو یہ بتانے کی زحمت گوارہ کریں گے کہ زمینی حد بندی اورمختلف علاقوں کے مابین رابطے کے بغیر یہ تخلیلاتی ریاست کس طرح کام کرے گی؟
 
یہی وجہ ہے کہ ہر فلسطینی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ زمینی حقائق کی عدم موجودگی میں بڑے بڑے ناموں پر مشتمل یہ فلسطینی ریاست ان کے حقوق کا تحفظ کیسے کرے گی؟ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ یہ ہنگ ریاست فلسطینی کاز اور فلسطینی عوام کیلئے تباہ کن ہوگی- یہ فلسطینیوں کے بجائے اسرائیلی مشکلات کیلئے تباہ کن ہوگی- یہ فلسطینیوں کے بجائے اسرائیلی مشکلات آسان کرنے کا باعث بنے گی کیونکہ اس کے بعد اسرائیل یہ دعوی کرسکے گا کہ فلسطینی ریاست قائم کرکے اس نے یہ مسئلہ حل کر دیا ہے- اس کے علاوہ اسرائیل اس بنیاد پر دنیا بھر کے عرب اور مسلم ممالک کے  آگے یہ زہریلا پراپیگنڈا کرے گا کہ وہ فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی بننے کی کوشش نہ کریں-
 
اس کے علاوہ اس اسرائیلی پراپیگنڈے میں وہ فلسطینی حکام یا ترجمان بھی ممدو معاون ثابت ہوں گے جو اس نئی ریاست کے قیام کو خوش آئند قرار دیکر شکوک و شبہات پیدا کرنے اور افواہیں پھیلانے کا سبب بنیں گے-

سلام فیاض کی یہ تجویز دراصل فلسطینی عوام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا ردعمل جانے کی کوشش ہے اور اسے اس ضمن میں پی ایل اور اور فتح کی قیادت کی مکمل تائید و حمایت بھی حاصل ہے- یہ سچ ہے کہ  پی ایل او اور خاص طور پر فتح اس طرح کے زور دار بیانات دیتی رہتی ہے کہ 1967ء میں قبضہ کئے گئے تمام علاقوں سے اسرائیل کے مکمل انخلاء اوردنیا بھر میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے 45 لاکھ فلسطینی مہاجرین کی واپسی تک جدوجہد جاری رہے گی لیکن یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ اپنے گھروں سے نکالے گئے فلسطینیوں کی واپسی کی بات فتح محض بیانات کی حدتک پراپیگنڈا کے طور پر کرتی ہے-

سچ تو یہ ہے کہ بشمول محمود عباس پی ایل او کے متعدد عہدیدار بارہا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ جب وہ فلسطینیوں کے حق واپسی کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد فلسطینیوں کی نئی فلسطینی ریاست میں واپسی ہے نہ کہ اسرائیل کے زیرانتظام علاقوں میں حقیقت یہ ہے کہ پی ایل او کے تردیدی بیانات سے نہ تو فلسطینیوں کے حقوق واپس  آتے ہیں اور نہ ہی اس سے القدس شریف کی  آزادی مقصود ہوتی ہے جسے اسرائیلی بلڈوزروں‘ ٹینکوں اور دیگر اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے اس شہر کی عرب اسلامی شناخت ختم کرکے اسے یہودیوں کا گڑھ بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے- پی ایل او کی قیادت بالخصوص محمود عباس‘ ان کے مشیروں‘ ترجمانوں اور دیگر عہدیداروں کے  مقبوضہ بیت المقدس سے متعلق دھیمے بیانات سے یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ لوگ صیہونی ریاست سے کسی حتمی معاہدے کے نتیجے میں ان فلسطینی علاقوں سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں-
 
یہی وجہ ہے کہ یہ سرنگوں اور شکست خوردہ حکام و عہدیدار اپنی نجی محفلوں میں یہ کیسے نظر آتے ہیں کہ ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے- بدقسمتی سے فتح کے حالیہ انتخابات کے بعد سامنے  آنے والی قیادت اسرائیل کے تجاوزانہ رویے کی مذمت اور فلسطینیوں کے حق واپسی پر ڈٹے رہنے کے بجائے محمود عباس اور سلام فیاض کے اس موقف کی حامی نظر  آتی ہے کہ فلسطینیوں کو اپنے اصولی مؤقف سے ہٹ کر عالمی صورتحال کے تناظر میں جو ممکن ہے اس پر راضی ہوجانا چاہیے-
 
یہ صورتحال فتح کے اس دعوے سے قطعی متصادم اور صریحاً مختلف ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ اگست کے اوائل میں بیت اللحم میں ہونے والے پارٹی کے چھٹے اجتماعی عام کے نتیجے میں یاسر عرفات کے روایتی موقف کو ترک کرکے فلسطینی کاز کو تقویت دی گئی- یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ  فتح کی قیادت ان میں خواب دیکھ رہی ہے یا پھر دانستہ طور پر فلسطینی عوام سے سچ چھپایا جا رہا ہے-

اس میں کوئی شک نہیں کہ فتح سے طویل عرصے تک قومی ایجنڈے پر ڈٹ کر کھڑی رہی اوراس میں اب بھی کئی مخلص لوگ موجود ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ فتح پر کرپٹ اور بددیانت لوگوں کوغلبہ ہے‘ یہ لوگ پوری تنظیم کو اپنی مرضی کے مطابق ہانک رہے ہیں اور فاروق قدومی جیسے معم اور بے اختیار لوگوں کی بات کوئی نہیں سنتا اور ان جیسے مخلص لوگ سوچ کا دھارا بدلنے سے قاصر ہیں کیونکہ ان ’’رجائیت پسندوں‘‘ کے نزدیک نئی ریاست کا حصول فلسطینیوں کے حق واپسی اور مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی سمیت تمام مقاصد پر مقدم ہے-
 
یقینا انسان کو خالی کے بجائے بھرا ہوا  آدھا گلاس دیکھ کر مایوس نہیں ہونا چاہیے مگر جھوٹ پر مبنی رجائیت پسندی پر بھی نظر رکھنی چاہیے کیونکہ یہ تباہ کن ہوا کرتی ہے-اطلاعات کے مطابق فتح کی مالیاتی بقاء کا انحصار فلسطینی اتھارٹی پر ہے جو مغرب ممالک بالخصوص امریکہ اور اس کے کٹھ پتلی عرب ممالک کی طرف سے ملنے والی امداد کی محتاج رہتی ہے-
 
معاشی انحصار کا براہ راست نتیجہ سیاسی سمجھوتے کی صورت میں نکلتا ہے جیسا کہ الفتح فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی فوج کے درمیان کریمنل سکیورٹی کو آرڈی نیشن کے معاملے پر شرمناک خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے- لہذا یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر فتح  فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیلی قابض فوج سے کو رڈی نیشن کو نظرانداز کرسکتی ہے تو کل کلاں یہ اپنی سیاسی بقاء یا تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے مسئلہ فلسطین پر اپنے موقف میں بھی نرمی پیدا کرسکتی ہے- خدا کرے کہ ایسا کبھی ہو-

مختصر لنک:

کاپی