سویڈن کے مقبول ترین اخبار ’’دی ٹیبلوئڈ افتون بلادت‘‘ نے 18 اگست کو ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ اسرائیلی قابض فوج مغربی کنارے میں انسانی اعضاء کی فروخت کے مکروہ دھندے میں ملوث ہے اور فلسطینی شہریوں کو محض اس لئے قتل کردیا جاتا ہے کہ ان کے اعضاء نکال کر فروخت کئے جا سکیں- اخبار نے رپورٹ کے ساتھ ایک فلسطینی نوجوان کی تصویر بھی شائع کی ہے جس کی ٹھوڑی سے ناف تک چیرپھاڑ کے نشان ہیں-
اخبار نے اس ظلم کا شکار بننے والے ایک خاندان کی گفتگو بھی شامل اشاعت کی ہے جس کے مطابق ان لڑکوں کی لاشوں سے اعضاء نکال لئے گئے- اخبار کا کہنا ہے کہ اعضاء کی اس تجارت کے نیوجرلی اس مکروہ دھندے میں ملوث پائے گئے- اس رپورٹ کے مصنف ڈونلڈ بوسٹرروم نے فلسطینی شہریوں کی جانب سے اعضاء ہڑپ کئے جانے پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے ہیگ میں موجود عالمی عدالت انصاف سے مطالبہ کیا ہے کہ اس صورتحال کا نوٹس لیا جائے-
بوسٹر روم ایک عینی شاہد کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ مغربی کنارے کے نواحی گاوں سے ایک فلسطینی نوجوان بلال احمد غنیان کو اسرائیلی قابض فوجی ہیلی کاپٹر میں ڈال کر لے گئے اور پانچ دن بعد جب اسے مردہ حالت میں لواحقین کے حوالے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کے اعضاء نکالے جاچکے ہیں اور اس کی ٹھوڑی سے معدے تک جسم کھولے جانے کے بعد ٹانکے لگا کر بند کردیا گیا تھا- بوسٹر روم نے ایک اور موقع کے گواہ کا بھی تذکرہ کیا ہے جس کے مطابق اس کے بیٹوں کو انسانی اعضاء زبردستی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا کہا گیا-
اسرائیلی ترجمان اور وزارت خارجہ کے حکام اس رپورٹ کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے سویڈن کے کثیرالاشاعت اخبار کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں- اسرائیلی ترجمان لیگال پالمور کے خیال میں اسرائیل کے خلاف جارحیت کو ایک مقدس فریضہ قرار دینا درست نہیں- کچھ اسرائیلی حکام اس رپورٹ کو یہود مخالف پراپیگنڈا قرار دیتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کی بات کر رہے ہیں-
اسرائیلی فلسطینی عوام سے روا رکھے جانے والے وحشیانہ سلوک اور نسلی امتیاز پر ہونے والی عالمی تنقید پر ضرورت سے زیادہ ردعمل ظاہر کررہا ہے- قبل ازیں رواں سال کے شروع میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں سویلین آبادی پر عالمی طور پر ممنوعہ قرارداد دیئے گئے مہلک ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے متعدد شہریوں کو قتل اور بیشمار افراد کو زخمی کردیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ عالمی برادری اس پر خاموش رہے-
حقوق انسانی کی تنظیموں نے 20 دن تک جاری رہنے والے اس وحشیانہ حملے کے دوران اسرائیلی کارروائیوں کو جنگی جرائم قرار دیا- اسی طرح اسرائیل نے مغربی کنارے میں ہزاروں فلسطینیوں کو قتل کرکے ان کی لاشیں ابوکبیر کے مردہ خانے میں بھجوا دیں- یہ تو واضح نہیں کہ ان فلسطینیوں کی لاشوں سے نکالے گئے اعضاء تلف کردیئے گئے یا پھر انہیں صیہونیوں کو بچانے کیلئے ٹرانسپلانٹیشن کی غرض سے استعمال کیا گیا لیکن ان کے اعضاء نکالے ضرور گئے-
جنوری 2002ء میں اسرائیلی وزیر نے نہایت فنکاری کے ساتھ یہ اعتراف کیا کہ فلسطینی مقتولین کے اعضاء کی یہودی مریضوں کو لواحقین کی اجازت کے بغیر پیوندکاری بعیدازقیاس نہیں- اسرائیلی وزیر نسیم دیہان نے ایک عرب رکن پارلیمنٹ کے سوال پر کہا تھا کہ وہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے فلسطینی نوجوانوں کے اعضاء پیوندکاری یا سائنسی تحقیق کی غرض سے استعمال کئے جانے کی تردید یا تصدیق نہیں کرسکتے-
عرب رکن پارلیمنٹ احمد طیبی نے کہا تھا کہ انہیں باوثوق ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ ابوکبیر ہسپتال کے مردہ خانے میں فلسطینی مقتولین کی لاشوں سے دل‘ گردے‘ پتہ اور اس طرح کے بڑے اعضاء نکال لئے جاتے ہیں- 2002ء کے دوران الجزیرہ ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے بھی یہ الزام عائد کیا تھا کہ اسرائیلی فوج اعضاء نکالنے کیلئے فلسطینی بچوں اور نوجوانوں کو قتل کرتی ہے- 14 جنوری 2002ء کو دیئے گئے اس انٹرویو میں یاسر عرفات نے بچوں کی تصاویر بھی دکھائی تھیں جن کے اعضاء نکالے گئے-
انہوں نے کہا تھا کہ میں گھر میں نظربند ہونے کی وجہ سے پریشان نہیں بلکہ ان فلسطینیوں کیلئے پریشان ہوں جو 15 ماہ سے محاصرے میں ہیں- اسرائیل نے اعتراف کیا ہے کہ خان یونس کے قریب مارے جانے والے 3 فلسطینیوں کے اعضاء کی گرین برگ میڈی سن انسٹیٹیوٹ ابوکیر میں استعمال کئے گئے- 10 دن بعد ان فلسطینیوں کی لاشیں لواحقین کے حوالے کی گئیں تو ان کی آنکھیں بھی نکال لی گئی تھیں- اسرائیل نے فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے فلسطینیوں کے اعضاء کی خرید و فروخت کے معاملے کی تحقیقات پر کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی-
ایک رپورٹر سائرہ صوفان کے مطابق فلسطینیوں کی لاشوں سے اعضاء نکال کر پیوندکاری کا سلسلہ 1990ء سے بھی پہلے کا جاری ہے- سائرہ کے مطابق جب مقتولین کی لاشیں سپردخاک کرنے کیلئے ورثاء کے حوالے کی جاتی ہیں تو اعضاء نکالے جانے کا انکشاف ہوتا ہے اور نام نہاد پوسٹمارٹم کے بعد اعضاء نکال کر ان کی جگہ کاٹن بھر کر ٹانکے لگا دیئے جاتے ہیں- بعض اوقات ان سیاحوں کے اعضاء بھی چرا لئے جاتے ہیں جن کا اسرائیل میں انتقال ہوجاتا ہے-
ایسا ہی ایک واقعہ 1998ء میں پیش آیا جب سکاٹ لینڈ کا ایک شہری ایکسٹر نامعلوم وجوہ کی بناء پر ان گوریان ایئرپورٹ کی حوالات میں مر گیا اور جب اس کی لاش سے دل اور دیگر اعضاء نکال لئے گئے تو اس کے والدین نے اسرائیلی حکام کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی راہ اختیار کی جس پر اسرائیلی حکام نے دل اور دیگر اعضاء اس کی ماں کو بھجوا دیئے مگر اس نے یہ کہہ کر انہیں قبول کرنے سے انکار کردیا کہ یہ میرے بیٹے کے اعضاء نہیں-