ان کی موت کے اسباب تو تاحال واضح نہیں تاہم ان کے اہل خانہ اور رشتہ دار اس بات پر یکسو ہیں کہ انہیں فلسطینی اتھارٹی کے مغرب نواز سکیورٹی اہلکاروں نے بدترین تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا- ہمدانہ کے بھائی نے فلسطینی اتھارٹی کی اس رام کہانی کو یکسر مسترد کردیا ہے کہ انہوں نے جیل میں خودکشی کی-
ان کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کا یہ کہنا سفید جھوٹ اور ناقابل یقین بات ہے- وہ کہتے ہیں کہ خودکشی اسلامی تعلیمات کے مطابق بہت بڑا گناہ ہے تو پھر ایک نہایت متقی شخص اس کا ارتکاب کیسے کرسکتا ہے؟ یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ رواں سال فلسطینی اتھارٹی کے مبینہ تشدد کے نتیجے میں اب تک تین قیدی جاں بحق ہوچکے ہیں- گزشتہ ہفتے فواد پناہ گزین کیمپ کے رہائشی سکول ٹیچر 45 سالہ کمال ابوطعیمہ کو دوران حراست بدترین تشدد اور لگاتار مارپیٹ کے نتیجے میں دل کا جان لیوا دورہ پڑا تھا-
جون کے مہینے میں احلی ہسپتال ہیبرون کی ایک نرس حیطم آمر کو محمود عباس کے انٹیلی جنس اہلکاروں نے مار مار کر شہید کردیا تھا-مقبوضہ کا نیلا بدن اور اس پر زخم کے نشانات بتا رہے تھے کہ اس کی موت بدترین تشدد کے نتیجے میں واقع ہوئی ہے اور فلسطینی اتھارٹی کے بیانات جھوٹ کا پلندہ ہیں- فلسطینی اتھارٹی نے اپنے گھناونے جرم کو چھپانے کیلئے اس کی موت کی وجہ یہ بتائی کہ وہ تیسری منزل سے نیچے گر گئی تھی- بدقسمتی سے غلط بیانی فلسطینی اتھارٹی کے نزدیک کوئی جرم نہیں اور اگر جھوٹ بولنے والا کسی سکیورٹی ایجنسی میں اہم عہدے پر ہو تو جوابدہی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا-
فلسطینی اتھارٹی نے حطیم آمر کی موت کی تحقیقات کا حکم ضرور دیا تھا مگر ابھی تک مرنے والی خاتون کی پوسٹمارٹم رپورٹ ہی سامنے نہیں آ سکی- ایسی ایک مثال سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی کنارے میں نظام عدل کا کیا حال ہے- لہذا یہ بیان بھی مسترد کردینا چاہیے کہ قیدی نے خودکشی نہیں کرلی کیونکہ عین شباب میں کوئی شخص بغیر کسی وجہ کے تو خودکشی نہیں کرتا-
یہ اندازہ لگانے کیلئے آپ کو کسی ماہر نفسیات کی ضرورت تو نہیں ہوگی کہ جیل میں کوئی قیدی خودکشی اس وقت ہی کرتا ہے جب بدترین تشدد کے نتیجے میں اس کا جینا دشوار کردیا جائے- ہر شخص میں تشدد برداشت کرنے کی استعداد مختلف ہوتی ہے اور ایک وقت آتا ہے جب انسان مزید تشدد برداشت نہیں کرسکتا- فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت جیلوں میں تشدد کرنے پر پابندی ہے‘ صدر محمود عباس اور ان کے وزیراعظم سلام فیاض سمیت سب حکام کہتے ہیں کہ انہوں نے تشدد پر پابندی عائد کررکھی ہے اور فلسطینی اتھارٹی اس ضمن میں واضح ہدایات بھی جاری کرچکی ہے تو پھر یہ سب کیوں ہورہا ہے؟ تشدد کے نتیجے میں کیس قیدی کی ہلاکت غیردانستہ طور پر نہیں ہوتی بلکہ یہ مغربی کنارے میں حماس کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی شعوری مہم کا نتیجہ ہے-