دو سال قبل فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی حکومت کے مابین سیکورٹی کے معاملات پر اشتراک کا آغاز ہونے کے بعد اب تک تفتیشی مراکز میں تشدد کے نتیجے میں 10 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں- اسلام مخالف عالمی طاقتوں کا ایک اتحاد جس میں امریکہ، اسرائیل اور چند متشدد عرب ممالک کی حکومتیں شامل ہیں اس کے تعاون اور حوصلہ افزائی سے فلسطینی اتھارٹی نے غزہ کی پٹی میں حماس کے حامیوں اور کارکنوں کے خلاف انتقامی مہم شروع کررکھی ہے اس مہم کے دوران اب تک سینکڑوں افراد کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جاچکا ہے-
فلسطینی اتھارٹی کے مطابق اس مہم کا مقصد حماس کو رام اللہ میں فتح کی انتظامیہ کے خلاف ممکنہ بغاوت سے باز رکھنا ہے- تاہم اس بے رحم اور سفاک مہم کا اصل مقصد حماس کو اس بات کی سزا دینا ہے کہ اس کے 2007ء میں غزہ سے فتح کے مسلح افراد کو کیوں نکال باہر کیا- ابو طعیمہ کی شہادت کا سفر 16 ستمبر 2008ء کو اس وقت شروع ہوا جب سیکورٹی فورس نے انہیں احاطۂ عدالت سے تشدد کرتے ہوئے گرفتار کیا اور الخلیل میں واقع اپنے تفتیشی مرکز لے گئی- ان کے اہل خانہ کے مطابق اس تفتیشی مرکز میں ابو سیاف (یہ ان کا معروف نام ہے) کو ہر طرح کے نفسیاتی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا-
ابو طعیمہ کی اولوالعزمی اور مستقل خاموشی کے نتیجے میں تشدد بڑھتا چلا گیا اور آخر کار نابلس اور رام اللہ کے قریب بیتونیا سے دو تازہ دم تفتیشی ٹیموں کو تشدد کے نئے حربے آزمانے کیلئے بلوایا گیا- 7 نومبر 2008ء کو اس 46 سالہ معلم کو ہائی بلڈ پریشر کے نتیجے میں دل کا دورہ پڑا جو مہلک ثابت ہوا اور ان کی قوت گویائی چھن گئی اور وہ اس قابل بھی نہ رہے کہ کھڑے ہوسکیں-
انہیں الخلیل کے سرکاری ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ ایک ہفتہ زیر علاج رہے- 3 جون کو ابو طعیمہ کو سٹریچر پر ڈال کر الخلیل سے دس کلو میٹر دور الفوار کیمپ منتقل کر کے آزادی دیدی گئی- اسی اثناء میں ان کی حالت بگڑتی چلی گئی اور ان کے اہلخانہ صحتیابی کی امید پر علاج کیلئے انہیں عمان لے گئے- 26 جولائی کو شاہ حسین میڈیکل سینٹر عمان کے ایک عہدیدار نے انکشاف کیا کہ طبی طور پر ابو طعیمہ کی موت واقع ہو چکی ہے اور انہیں مصنوعی طریقے سے زندہ رکھا جا رہا ہے-
ابو طعیمہ کو حماس کی تحریک آزادی سے وابستگی اور اسرائیلی قابض فوج کے خلاف سرگرمیوں کے الزام میں 9 سال تک مختلف اسرائیلی جیلوں میں قید رکھا گیا- 1991ء میں وہ بھی ان فلسطینی رہنماؤں اور کارکنان میں شامل تھے جنہیں چار سو کی تعداد میں سابق اسرائیلی وزیر اعظم اضحاک رابن کے حکم پر جنوبی لبنان جلاوطن کردیا گیا- ابو طعیمہ کا شمار حماس کے ان قائدین میں ہوتا تھا جو نئی نسل کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں- ان کے ایک قریبی دوست احمد کے مطابق ابو سیاف کی متواتر کاوشوں کے نتیجے میں ہی فلسطینی پناہ گزین مضبوط ہوئے اور ان میں واپس آنے کا شعور بیدار ہوا- یہ ان کے عزم و حوصلے کے باعث ہی ممکن ہوا کہ آج ہر فلسطینی مہاجر یہاں تک کہ غیر مسلم فلسطینی بھی وطن واپسی کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں-
4 اگست کو جب کمال ابو طعیمہ کی شہادت کی خبر پہنچی تو الفوار پناہ گزین کیمپ میں ان کے رشتہ داروں، اہلخانہ اور دوستوں نے فلسطینی اتھارٹی پر کھلے عام تنقید کرتے ہوئے حماس سے وابستگی کے طور پر سبز پرچم لہرا دیئے- اس سے فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی فورسز سخت سیخ پا ہوئیں اور نہ صرف ابو طعیمہ کی یاد میں ہونے والے تعزیتی ریفرنس کو درہم برہم کردیا بلکہ حماس کے جھنڈے بھی اتار کر پھینک دیئے- تاہم ابو طعیمہ کے اہلخانہ نے کہا کہ ان کا بیٹا کوئی سازشی یا غدار نہیں بلکہ ہیرو ہے اس لیے وہ ہر صورت اس کے اعزاز میں تقریب منعقد کریں گے چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو- اسی اثناء میں الخلیل اور مغربی کنارے کے علاقوں سے ہزاروں افراد شہید کمال ابو طعیمہ کو خراج عقیدت پیش کرنے اور اس کے اہلخانہ سے اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوگئے-
کمال ابو طعیمہ شہید کو 5 اگست کو الفوار کیمپ کے قبرستان میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کردیا گیا- فلسطینی اتھارٹی کی عدلیہ نے کمال ابو طعیمہ کی شہادت کے معاملے کی ابھی تک کوئی جانچ پڑتال نہیں کی جس سے فلسطین کے عدالتی نظام کے دیوالیہ پن کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے- ابھی تک ابو طعیمہ کی شہادت کے سلسلہ میں کسی ایک ملزم کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا- فلسطینی اتھارٹی نہ صرف ان کی موت کا سراغ لگانے سے انکاری ہے بلکہ حماس کی دیگر قیادت کو بھی اسی طرح ختم کرنے کی دھمکی دی گئی ہے-
چند ماہ قبل بھی فلسطینی اتھارٹی کے الخلیل میں واقع ایک اور ٹارچر سیل میں حماس کے کارکن حیطم امر کو دردناک طریقے سے قتل کیا گیا تھا- فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سمیت دیگر حکام بارہا تفتیشی مراکز میں تشدد کے خاتمے کا حکم دے چکے ہیں مگر معصوم اور بے گناہ فلسطینیوں کو ریاستی تشدد کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارنے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ دوسری جانب مغربی ممالک کی حکومتیں مشرقی وسطی میں انسانی حقوق کا واویلا کرتے ہوئے منافقانہ روش پر عمل پیرا ہیں-