مرکز اطلاعات فلسطین سے فتح کی جنرل کانفرنس اور فلسطین کی موجودہ صورت حال پر غازی حسین نے بات چیت کی جسے ذیل میں پیش کیاجاتا ہے-
ٌ مرکز اطلاعات فلسطین :آپ ایک تجزیہ نگار کی حیثیت سے کیا سمجھتے ہیں کہ فتح کی موجودہ جنرل کانفرنس فلسطین کے سیاست پر کچھ اثرات مرتب ہوں گے یا یہ محض ایک نمائشی کانفرنس ہے جو غیرملکی خاکوں میں رنگ بھرنے کے لیے منعقد کی گئی ہے؟
غازی حسین:فتح کا قیام جن مقاصد کے لیے عمل میں لایاگیا تھا، لمحہ موجود میں وہ مقاصد دور دور تک نظر نہیں آرہے-1967 میں اس تنظیم نے اپنے قیام کے مقاصد کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد کو اپنا مطمع نظر بنایا اورسیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مسلح جدو جہد کو لازمی قراردیا، لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ فتح کے موقف میں تبدیلی آتی رہی اور یہ مسلسل پسپائی درپسپائی کا شکار ہوتی چلی گئی- چنانچہ فتح کا پہلا قدم اس وقت پھسلا جب اس کی قیادت نے مغربی کنارے اورغزہ پرمشتمل ایک فلسطینی ریاست کی تجویز پیش کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر غور شروع کیا- بعد ازاں 1974 میں فتح کے سربراہ نے اقوام متحدہ میں ایک انوکھی تجویز پیش کی اور کہا کہ وہ فلسطین میں یہودیوں اور مسلمانوں پرمشتمل ایک سیکولر ریاست کو تسلیم کرنے کوتیار ہیں- پسپائی کے اس تسلسل کے بعد 1993 کے اس معاہدے کو فراموش نہیں کیاجاسکتا جس کے تحت فلسطینیوں کے بنیادی حقوق پرکلہاڑا چلایا گیا اور "اوسلو”جیسے بدنام زمانہ معاہدے پر دستخط کرکے اسرائیلی قبضے کو جواز فراہم کردیا گیا-
فتح کی اصل ناکامی اس وقت شروع ہوئی جب اس نے اسرائیل کے خلاف اپنی مسلح جدو جہد کوترک کرتے ہوئے امریکہ کی زیرنگرانی مسائل کے حل کے لیے سیاسی اور سفارتی ذرائع کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا-
جب تک فتح کا ہیڈ کوارٹر بیروت میں تھا تب تک اسرائیل کے خلاف مسلح جدو جہد کی تحریک جاری تھی، فتح قیادت نے اس وقت پلٹا کھایا جب اس نے باقاعدہ طور پراپنا کام فلسطین کے اندر شروع کیا-جب پہلی تحریک انتفاضہ شروع ہوئی تو فتح نے اس وقت بھی دو رخی پالیسی اپنائی- ایک طرف اس نے تحریک انتفاضہ کو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا پروگرام بنایا اور دوسری جانب تحریک انتفاضہ سے علیحدگی کا بھی تاثر دیا تا کہ دنیا کے سامنے خود کو اسرائیل کا حامی ثابت کیا جاسکے-
موئخر الذکر کیفیت کو صدر محمود عباس کی حمایت حاصل تھی اور وہ تحریک انتفاضہ کے سخت خلاف تھے-یہی وجہ ہے وجہ سابق اسرائیلی وزیراعظم ایرئیل شیرون نے تکرار کے ساتھ کہا کہ وہ یاسرعرفات کو تحریک انتفاضہ کی آڑ میں سیاسی مفادات سمیٹنے کی اجازت نہیں دیں گے- مذاکرات اپنی جگہ اہم ہیں لیکن بات چیت تحریک انتفاضہ کے تناظر میں نہیں ہوگی-اب یہ بات فاروق قدومی کی یاسرعرفات کو زہردے کر ہلاک کرنے کی دستاویز کے منظرعام پرآنے کے بعد عملاً ثابت ہوچکی ہے کہ اسرائیل نے یاسرعرفات کوزہر دے کر ہلاک کروایا- یاسرعرفات کے قتل میں محمود عباس اور دحلان بھی شامل ہیں-
رہی موجودہ جنرل کانفرنس، تو یہ فلسطینی عوام کے خلاف محض ایک دھوکہ اور فریب ہے- فتح فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کی جنگ لڑنے سے پہلے ہی دست بردار ہوچکی تھی- اب اس نے القدس کی آزادی پربھی سمجھوتہ کرلیا ہے- فتح کے نزدیک فلسطینی پناہ گزینوں کی بھی کوئی اہمیت نہیں- اس کانفرنس کا مقصد محمود عباس اور اس کی ٹیم کے اقتدار کو دوام بخشنا، اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا، اس کے جرائم پرپردہ ڈالنا اور فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی سودے بازی کرنا ہے-
مرکز اطلاعات فلسطین: آپ کے خیال میں فتح کی یہ کانفرنس فلسطینیوں کے حق واپسی اور مسلح مزاحمت کے تحفظ کا فیصلہ کر سکے گی؟
غازی حسین: فلسطینی اتھارٹی گزشتہ کئی برسوں سے اسرائیل سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے-ان مذاکرات میں اب تک ، اراضی کے تبادلے،بیت المقد س کو متحد رکھنے ، پناہ گزینوں کی وطن واپسی کی راہ روکنے کے باے میں بات چیت ہوتی رہی ہے اور کافی حد تک فلسطینی اتھارتی نے اس سے اتفاق بھی کیا ہے-رہی مسلح مزاحمت اس سے بھی فلسطینی اتھارتی عملاً دستبرداری کا اعلا ن کر چکی ہے-اب صرف یہ کوشش جاری ہے کہ کسی طرح ایک نام نہاد معاہدہ عمل میں لایا جائے جس کے تحت ایک عارضی اور ایک غیر مستقل ریاست قائم کر دی جائے اور اس ریاست کی حیثیت بھی اسرائیل کے ماتحت ایک علاقے کی سی ہو گی-
فتح1967ء میں اپنے قیام سے لیکر اب تک تنظیم آزادی فلسطین کی نگرانی کر رہی ہے- اس دوران اربوں ڈالرز کی بیرونی امداد ملتی رہی ہے-سوال یہ ہے کہ وہ ڈالر کہاں ہیں؟ فتح کے پاس سے وہ بھاری اسلحہ کہاں گیا-بدقسمتی سے ان سوالوں کا جواب بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کیونکہ فتح کی کرپشن کے جو اسکینڈلز سامنے آتے رہے دنیا کی کسی دوسری جماعت کی ایسی بھیانک تاریخ نہیں ہے-فتح میں احتساب سیل ہونے کے باوجود انہیں کیوں سزا نہیں دی جا رہی یہ یقینافتح پر ایک سوالیہ نشان ہے-
فتح کی موجودہ حقیقت اور تنظیم آزادی فلسطین کی قیادت اپنی آئینی حیثیت کھو چکی ہیں-فتح کی ایگزیکٹو کونسل 1991سے غیر قانونی طو ر پرغلط ہے جبکہ اس کی مرکز ی کمیٹی بھی مسلسل غیر قانونی طور پر فتح کے کندھوں پر سوار ہے-اب صدر محمود عباس تو نو جنوری 2009سے غیر آئینی صدر قرار دئیے جاچکے ہیں-اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ فلسطین کے تمام اہم اداروں تنظیم آزادی فلسطین ، اس کے ذیلی اداروں ، مالی ، انتظامی ا ور عسکری شعبوں کے واحد مالک بھی یہی ہیں-
سب سے تکلیف دہ امر مغربی کنارے میں فتح کا قبضہ ہے – وہاں پرفتح کے قبضے کے دوران تحریک مزاحمت کو جو نقصان پہنچایا گیا اس کی مثال نہیں دی جا سکتی ہے-فتح نے امریکا اور اسرائیل سے فوجی امداد حاصل کر کے تحریک مزاحمت کو کچلنے کا فیصلہ کر رکھا ہے-گزشتہ کچھ عرصے کے دوران فتح نے جنگی تربیت اور مزاحمت کچلنے کیلئے امریکا سے 65ملین ڈالر کی خطیر رقم حاصل کی- میرے پاس اس کے ٹھوس شواہد موجود ہے کہ موجود ہ صدر فتح کو تحریک مزاحمت کچلنے کیلئے ایک آلے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں-
مرکز اطلاعات فلسطین:ایک تاثر یہ بھی ہے کہ فتح کی موجودہ کانفرنس اسرائیل کی اجازت کے تحت منعقد ہوئی ہے اور اس میں وہی بات مدنظر رکھی جائے گی جو اسرائیل کے لئے مفید ہو-حتی کہ فتح کے کئی اسرائیل مخالف رہنماوں کو یہ احساس دلایا جا چکا ہے کہ وہ جنرل کونسل کے اجلاس میں ایسا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے جو اسرائیل کو منظور نہ ہوآپ اس کے بارے میں کہا کہتےہیں–
غازی حسین :فتح ایک شکست خوردہ اور اسرائیلی پنجوں میں جکڑی ہوئی جماعت ہے-اب یہ جماعت کوئی ایسا فیصلہ نہیں کر سکتی جو فلسطینی عوام کے مفاد میں ہو اور اسرائیل کے خلاف ہو-اسرائیل کی حمائت اس کا وطیرہ رہا ہے-اس نے عرب ممالک کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے لئے کی جانے والی کوششوں اور اقدامات کو بھی سبو تاژ کیا ہے-فتح کی قیادت میں اختلاف رہا ہے جس کی بنیادی وجہ اس کا اسرائیلی حامی اور مخالف دھڑے بندی ہے-
فتح کے جو لوگ جنرل کانفرنس کا انعقاد فلسطین سے باہر چاہتے تھے ان کے پیش نظر مزاحمت کے حق میں آزادانہ فیصلے ہی ہیں لیکن صدر عباس نے فلسطین کے اندر اس کے انعقاد کا فیصلہ کیا کیونکہ ان کو اسرائیلی خوشنودی مقصود ہے تاکہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے نام نہاد مذاکرات کے تسلسل کی راہ ہموار کر سکیں- ادھر اسرائیل نے بھی اپنا پینترہ بدل لیا اور وہ بھی عظیم تر اسرائیل کی بجائے مشرق وسطی میں اقتصادی سطح پر بالا دستی چاہتا ہے-اسرائیل کا خیال ہے کہ وہ اقتصادی امن کے نعرے کے ساتھ مشرق وسطی کے ممالک کی دولت سمیٹ سکے-ایسی صورتحال میں میں سمجھتا ہوں کہ بیت الحم میں منعقد کانفرنس کا مقصد فتح کی اسرائیلی حامی قیادت کو موثر بنانے اور اسے آگے لانا ہے-
مرکز اطلاعات فلسطین:فتح کے جنرل کونسل کے بائیکاٹ کرنے والے گروپ میں فاروق قدومی نمایاں ہیں-آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھیوں سمیت جماعت میں ایک مؤثر اپوزیشن کا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
غازی حسین: اس وقت امریکا ،یورپی یونین ، اسرائیل اور بعض عرب ممالک جن کے بارے میں ’’اعتدال پسند‘‘ ہونے کا تاثر ہے محمود عباس کی پشت پر ہیں- غزہ میں مقیم ارکان کی بیت ا لحم میں جنرل کانفرنس میں شرکت کے بدلے میں حماس کے قیدیوں کی رہائی کے معاملے میں عباس گروپ نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے-
محمودعباس کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ حماس نے فتح کی یہ پیشکش ٹھکرا دی ہے جس میں قیدیوں کی رہائی کے بدلے فتح کے ارکان کو غزہ سے باہر جانے کی اجازت دینا تھی- دونوں جماعتوں کے درمیان کوئی ڈیل طے نہ ہونے کی وجہ فتح کا رویہ مزید جارحانہ ہو گیا ہے-فتح کے غصے کی ایک وجہ 2006کے انتخابات میں حماس کے ہاتھوں اس کی شکست بھی ہے-یہی وجہ ہے کہ اسرائیل فتح اور حماس کو ایک دوسرے کے قریب آنے کی اجازت نہیں دیتا اور محمودعباس اور فتح کے برسراقتدار دھڑے کی مدد کر رہا ہے-
محمود عباس بیرون ملک فتح کے بعض قائدین کو نوازنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں-فتح کی مرکزی کمیٹی کے رکن محمد غنیم اس کی مثال ہیں- محمود عباس محمد غنیم کو جو بیرون ملک فتح کے سرکردہ رہنما ہیں فتح کی انقلابی کمیٹی کے ممبر بنانا چاہتے ہیں-اس کے علاوہ ان کا ایک فرزند مغربی کنارے میں سلام فیاض کی حکومت میں وزیربھی ہے جبکہ ان کے ایک دوسرے بچے کو وزارت تفویض کی جا رہی ہے-اس طرح محمود عباس فتح میں اپنا حامی گروپ مضبوط سے مضبوط ترین بنانے کیلئے کوشاں ہیں تاکہ وہ نہ صرف اپنی صدارت کی توسیع کر سکیں بلکہ دوباہ کامیاب ہونے کیلئے اپنے حامی بھی تیار کر سکیں-اس طرح ام جہاد کو دوبارہ مرکز ی مجلس کا رکن بنانے اور اس کے بیٹوں کو انقلابی کمیٹی کا ممبر بنانے کے اشارے بھی مل رہے ہیں-اس طرح کئی پرانے ارکان کو نکال دیا جائے گا اور ان کی جگہ محمود عباس کے حامی گروپ کو اکثریت حاصل ہو گی-
مرکزاطلاعات فلسطین:فتح کی مرکزی کمیٹی کے ارکان کی بڑی تعداد بیرون ملک ہے یا ملک بدر ہے؟ آپ کیاسمجھتے ہیں کہ اس کے باوجود فتح کی جنرل کونسل کا اجلاس آئینی ہے؟
غازی حسین:ایسا بالکل ممکن نہیں ہے کیونکہ بیرون ملک کانفرنس کے انعقاد کیلئے فتح کی انتظامی کمیٹی دو سال تک اجلاس کے انعقاد کیلئے کوشاں رہی ہے لیکن وہ اس میں ناکام رہی ہے-محمود عباس نے چند افراد کو جمع کیااور باقی بیرون ملک سے آئے ان کی ووٹنگ کے ذریعے ان کی حمائت کے حصول کا ڈھونگ رچایاگیا -جو غیر آئینی ہے-لہذا فتح کے موجودہ اجلاس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں اور نہ ہی اس کے فیصلوں کو قانونی قرار دیا جا سکتا ہے-
مرکز اطلاعات فلسطین:موجودہ حالات میں آپ فتح کے نام کیسا پیغام دیں گے؟
غازی حسین:میرا خیال ہے کہ فتح جو کانٹوں کی ایک فصل بو چکی ہے اسے ختم کر دینا چاہیے-وہ اوسلو معاہدہ ہو یا اسرائیلی سے بے سود مذاکرات، اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ ہو یا کچھ اورفتح اپنی پالیسی تبدیل کرے اور قومی دھارے میں شامل ہو کر تحریک مزاحمت کی حمایت کاکھل کر اعلان کرے-فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ اس کانفرنس کا بھی یہی مقصد ہونا چاہیے تھا جبکہ عالم عرب و اسلام بھی اس سے یہی توقع رکھتے ہیں-