جمعه 09/می/2025

اسرائیلی حکومت کا جنگی جرائم چھپانے کیلئے این جی اوز کیخلاف کریک ڈاؤن

اتوار 9-اگست-2009

اسرائیل نے موسم سرما کے دوران غزہ میں کی گئی فوجی کارروائی میں جن سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب کیا انہیں چھپانے کیلئے صیہونی حکومت نے انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے مقامی و غیرملکی اداروں کے خلاف ایک خصوصی مہم شروع کررکھی ہے-
 
اس مہم میں ایک  امریکی تنظیم ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ اور اختلافی سوچ رکھنے والے ریٹائرڈ فوجیوں پر مشتمل مقامی گروپ ’’بریکنگ دی سائیلنس‘‘ خاص طور پر حکومتی ہٹ لسٹ پر ہیں- مؤخرالذکر مقامی تنظیم گزشتہ ماہ ان 26 سابق فوجیوں کے بیان حلفی شائع کرچکی ہے جنہیں غزہ میں تعینات کیا گیا تھا- اسرائیلی میڈیا کے مطابق صیہونی حکومت حقوق انسانی کی ان تنظیموں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جو سچ سامنے لاکر فلسطینیوں کی مددگار ثابت ہورہی ہیں- سرکاری حکام ان این جی اوز کو موصول ہونے والے فنڈز پر سوالات اٹھا رہے ہیں اور یہ دھمکی دی جارہی ہے کہ اگر انہوں نے اپنی روش نہ بدلی تو بیرون ملک خاص طور پر یورپ سے فنڈز لینے پر پابندی عائد کردی جائے گی-

’’بریکنگ دی سائیلنس‘‘ اور حقوق انسانی کی دیگر مقامی تنظیموں نے ان اقدامات کو سیاسی عتاب کی حکومتی مہم قرار دیا ہے- ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ صیہونی حکومت انہیں فنڈز سے محروم کرکے تحقیق و تفتیش سے روکنا چاہتی ہے- ’’بریکنگ دی سائیلنس‘‘ کے ڈائریکٹر میخائل مینکن کے مطابق یہ انتہائی خطرناک اقدام ہے اور اسرائیل کو جمہوریت کی مخالف سمت میں دھکیلا جارہا ہے- اطلاعات کے مطابق یہ مہم سابق وزیر خارجہ ایوگڈور لائبرمین کی ذہنی اختراع ہے جنہیں اس وقت کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے مگر انہیں وزیراعظم بنیجامین نتین یاہو کی آشیرباد حاصل ہے-
 
گزشتہ ماہ کے شروع میں مسٹر لائبرمین نے ایک پریس کانفرنس کے دوران غیرسرکاری تنظیموں یا این جی اوز پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ عالمی برادری کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے سفارتکاروں کی ضرورت نہیں بلکہ یہ این جی اوز ان کا کام کررہی ہیں- انہوں نے ان این جی اوز کا اثرورسوخ ختم کرنے کیلئے اصطلاحات متعارف کرانے کی دھمکی بھی دی تھی- اس پریس کانفرنس کے ایک ہفتے بعد ہی ایوان وزیراعظم سے ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سعودی عرب میں جاری فنڈز اکٹھے کرنے کی مہم پر اعتراض کیا گیا- ہومن رائٹس واچ نے وضاحت کی ہے کہ سعودی حکومت کی طرف سے کوئی سرکاری امداد وصول نہیں کی جاتی بلکہ شہریوں کے انفرادی عطیات قبول کئے جاتے ہیں مگر اسرائیلی حکومت بضد ہے کہ سعودی عرب سے موصول ہونے والی تمام رقوم کا ایک خاص مقصد ہے اور اس کے نتیجے میں ہیومن رائٹس واچ کی غیرجانبداری برقرار نہیں رہتی-

دائیں بازو کے ایک اسرائیلی اخبار روزنامہ یروشلم پوسٹ کے مطابق حکومتی ترجمان مارک راجیو کا کہنا ہے کہ کسی حقوق انسانی کی تنظیم کا سعودی عرب میں فنڈز جمع کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی حقوق نسواں کی تنظیم طالبان سے عطیات مانگے- ہیومن رائٹس واچ نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں اسرائیل کے جنگی جرائم بے نقاب کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے نہ صرف غزہ میں وائٹ فاسفورس استعمال کیا بلکہ سویلین آبادی کو بھی نشانہ بنایا گیا-

 
اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد ہیومن رائٹس واچ کو امریکہ میں موجود اسرائیلی لابی اور معروف یہودی صحافیوں کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہے اور یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ سعودی عرب سے فنڈز قبول نہ کئے جائیں- اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہودی ڈونرز نے بھی ہیومن رائٹس واچ سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے فنڈز اسرائیل میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سراغ لگانے کیلئے استعمال نہ کئے جائیں- اسی اثنا میں اسرائیلی حکومت یورپی ممالک کی حکومتوں پر بھی دباؤ ڈال رہی ہے کہ اسرائیل میں کام کرنے والی این جی اوز کو فنڈز نہ دیئے جائیں- سیاسی عتاب کی اس حکومتی مہم کے آغاز میں تمام اسرائیلی سفارتخانوں کو ہدایت دی گئی ہیں کہ وہ معلوم کریں کون سا ملک کس این جی او کو ان سرگرمیوں کیلئے فنڈز دے رہا ہے-

گزشتہ ہفتے وزارت خارجہ نے برطانیہ‘ ہالینڈ اور سپین کے سفیروں کو شکایت کی کہ ان کی حکومتیں ’’بریکنگ دی سائلینس‘‘ نامی این جی او کو فنڈز دے رہی ہیں- فوجیوں کے شائع ہونے والے بیانات حلفی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں کس قدر سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب کیا- اس رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے نہ صرف سویلین آبادیوں پر وائٹ فاسفورس پھینکا بلکہ نہتے فلسطینیوں کو ڈھال کے طور پر بھی استعمال کیا گیا-

ایک فوجی نے تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج کے یہ گناہ ناقابل معافی ہیں- ہالینڈ نے ’’بریکنگ دی سائلینس‘‘ کو یہ رپورٹ تیار کرنے کے لئے 20000 یورو دیئے جبکہ حکومت برطانیہ نے اس این جی او کو گزشتہ برس 40000 یورو امداد دی- اسرائیلی حکام اس بات پر غور کررہے ہیں کہ یا تو این جی اوز کے غیرملکی امداد حاصل کرنے پر پابندی عائد کردی جائے یا پھر ان سے زبردستی یہ اعتراف کرایا جائے کہ وہ غیرملکی ایجنٹ ہیں- وزیراعظم سیکرٹریٹ کے ایک سینئر افسرو رون ڈرمر نے اس زیرغور تجویز کی حمایت اور دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکہ میں جنگ مخالف این جی اوز کی یورپی ممالک کی جانب سے سپورٹ ناقابل قبول ہے تو پھر اسرائیل کی منتخب جمہوری حکومت کے خلاف کام کرنے والی این جی اوز کو یورپی ممالک کی جانب سے فنڈز کا اجراء کیسے قابل قبول ہوسکتا ہے- انہوں نے الزام عائد کیا کہ بعض این جی اوز اسرائیلی ریاست کو غیرقانونی قرار دینے کے ایجنڈے پر کام کررہی ہیں-

گھر گرائے جانے کے خلاف بننے والی اسرائیلی کمیٹی کے سربراہ جیف ہالپر کے مطابق حکومتی موقف سالہا سال قبل حقوق انسانی کے ضمن میں ہونے والی پیشرفت کے برعکس ہے- مسٹر ہالپر کہتے ہیں کہ ہٹلر سے میلا سوچ تک ہر ڈکٹیٹر یہی کہتا چلا آیا ہے کہ کسی کو ملکی معاملات میں دخل دینے کا کوئی اختیار نہیں اور اس کا ملک خودمختار ہے لیکن عالمی قوانین کے مطابق انسانی حقوق یونیورسل ہیں اور انہیں کسی ایک حکومت کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جاسکتا- جینوا کنونشن کے پیچھے بھی یہی سوچ کار فرما تھی کہ جہاں کہیں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو اس پر نظر رکھنا اور تدارک کرنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے- مسٹر ہالپر جن کی این جی او کو گزشتہ سال فلسطینیوں کے مہندم کئے گئے گھر دوبارہ تعمیر کرنے کیلئے سپین کی طرف سے 80000 یورو امداد دی گئی تھی لیکن انہیں اسرائیلی فوج نے اس وقت گرفتار کرلیا جب انہوں نے دیگر کارکنوں کے ہمراہ غزہ کا حصار توڑنے کیلئے پرامن طور پر وہاں جانے کی کوشش کی-

ان کے علاوہ وزارت خارجہ جن این جی اوز پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے ان میں ’’بی-ٹی‘‘ جو یہودی آبادکاروں اور اسرائیلی فوجیوں کی زیادتیوں کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے کیلئے فلسطینیوں کو کیمرے فراہم کرتی ہے- ’’پیس نوؤ‘‘ جو یہودی آبادکاروں کیلئے نئی تعمیرات کی مانیٹرنگ کرتی ہے- ’’میچ سم واچ‘‘ جو چیک پوسٹوں پر موجود فوجیوں کے رویے پر نظر رکھتی ہے اور ’’فزیشنز فار ہیومن رائٹس‘‘ شامل ہے جس کا مقصد پرتشدد واقعات میں ڈاکٹروں کے کردار کو جانچنا ہے-

حکومت کی حالیہ سرگرمیوں سے یوں لگتا ہے کہ اس مہم کے ذریعے بائیں بازو کی تنظیموں اور عرب این جی اوز کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور یہ کام دائیں بازو کے ایک لابنگ گروپ ’’این جی او مانیٹر‘‘ کے ذریعے کیا جارہا ہے جس کے سربراہ تل ابیب کے قریب بارلان یونیورسٹی کے پروفیسر گیرالڈسٹین برگ ہیں- این جی او مانیٹر نے اگرچہ آکسفم اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دیگر عالمی تنظیموں کو بھی نشانہ بنایا ہے مگر اس کا اصل ہدف ہیومن رائٹس واچ ہے-
 
مسٹر سٹین برگ نے حال ہی یہ بیان داغا کہ ہیومن رائٹس واچ کے سعودی عرب جاکر فنڈز جمع کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ سے متعلق حالیہ رپوٹ شائع ہونے کے بعد یہودی ڈونرز نے اسے فنڈز دینا بند کردیئے ہیں- گزشتہ اتوار ’’یروشلم پوسٹ‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں سٹین برگ نے دعوی کیا کہ یورپی ممالک کی حکومتیں این جی اوز کو دیئے گئے فنڈز کو انتہائی خفیہ رکھتی ہیں اور اس دعوے کا مقصد یہ تاثر دینا تھا کہ یہ فنڈنگ غیرقانونی ہے‘ اس لئے خفیہ رکھی جاتی ہے- اس مضمون کے جواب میں ’’بریکنگ دی سائیلنس‘‘ کے ڈائریکٹر مسٹر مینکن نے کہا کہ ہم نے اپنے ڈونرز کی فہرست اپنی رپورٹ کے صفحہ اول پر شائع کی ہے کیونکہ ہمارا سسٹم ’’این جی او مانیٹر‘‘ سے زیادہ شفاف ہے کیونکہ کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اس ’’این جی او مانیٹر‘‘ کو فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے-

این جی او مانیٹر کی ویب سائٹ کے مطابق اس کا انحصار ویچسلر فیملی فاؤنڈیشن نامی امریکی ادارے سے حاصل ہونے والے فنڈز سے ہے مگر یہ سابق وزیراعظم ایریل شیرون کے سابق مشیر ڈورے گولڈ سے جڑی ہوئی ہے- مسٹر مینکن کے مطابق اسرائیلی حکومت این جی اوز کو زیرعتاب لاکر اس سچ کو نہیں چھپا سکتی جو کچھ غزہ میں ہوا- یہ نہیں ہوسکتا کہ محاذجنگ پر بھیجے گئے دس ہزار فوجیوں میں سے کوئی زبان نہ کھولے- اگر ہم یہ کام نہیں کریں گے تو کوئی اور کرے گا- اسی حکومتی مہم کے تحت ہی اپریل میں ان 6 خواتین ورکرز کو گرفتار کرلیا گیا جو اسرائیلی معاشرے کو عسکریت پسندی کی طرف دھکیلے جانے کی مخالفت کررہی تھیں- یہ خواتین ابھی تک حراست میں ہیں اور اس بات کی منتظر ہیں کہ کب ان پر مقدمہ چلایا جائے گا-
 

مختصر لنک:

کاپی