یسوع کی جائے پیدائش پر سکیورٹی کے سخت انتظامات تھے اور ہزاروں پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا- ان انتظامات کے باعث مقامی باشندوں کو سخت پریشانی کا سامنا تھا کیونکہ انہیں اپنے گھروں اور دفاتر تک پہنچنے کیلئے بہت لمبا چکر کاٹنا پڑ رہا تھا- راستے میں جن پولیس والوں سے واسطہ پڑا ان میں سے بعض تو نہایت خوش اخلاق تھے مگر بیشتر نہایت ہی بدتمیز واقع ہوئے تھے- جب میں ڈاؤن ٹاؤن بیت اللحم کے تیراسانت اسکول (جائے مقدس) میں کانفرنس ہال کے قریب پہنچا تو بتایا گیا کہ صرف وہی صحافی اندر جاسکتے ہیں جن کے پاس رام اللہ کے ایوان صدر کا خصوصی پریس کارڈ ہے-
معلوم ہوا کہ چند روز قبل ایوان صدر سے چند من پسند صحافیوں کو ای میل کی گئی تھی کہ وہ رام اللہ آکر اپنا خصوصی کارڈ حاصل کرلیں- میں ان صحافیوں کی فہرست میں شامل کیوں نہ تھا یہ تو مجھے معلوم نہیں تھا چنانچہ میں نے بیت اللحم میں وزارت اطلاعات کے افسران سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا- وزارت اطلاعات کی جانب سے محض یہ کہا گیا کہ آپ کل رابطہ کریں تو ہم کچھ تعاون کرنے کی پوزیشن میں ہونگے-
میں اندر جانے کا استحقاق نہ رکھنے والے دیگر صحافیوں کے ساتھ کانفرنس ہال کے باہر کھڑا تھا کہ ایک سکیورٹی افسر نے یہ کہہ کر میرا لیپ ٹاپ اور کیمرہ چھین لیا کہ تم نے کانفرنس ہال کے داخلی دروازے کی تصویر کیوں بنائی؟ بعدازاں خصوصی فورس کے چند بغیر وردی حکام نے مجھے مزید تفتیش کیلئے مقامی ہیڈکوارٹر کی طرف چلنے کو کہا تب ایک اور خفیہ اہلکار کا سامنا کرنا پڑا جو بار بار ایک ہی سوال پوچھتا رہا کہ تم کس کیلئے کام کرتے ہو؟- ان میں سے ایک نے کہا چونکہ تمہارے پاس صحافت کا لائسنس نہیں ہے اس لئے تم دونمبر صحافی ہو- ان میں سے ایک نے میرا شناختی کارڈ اور دو پریس کارڈ چھین لئے اور اس وقت تک انتظار کرنے کو کہا جب تک اوپر سے مزید ہدایات موصول نہیں ہو جاتیں- اسی اثناء میں مجھے احساس ہوا کہ معاملہ غلط فہمی سے آگے بڑھ گیا ہے اور مجھے ناپسندیدہ مضامین کے باعث دانستہ طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے-
میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک افسر نے کہا تمہیں شام تک نظربند رکھا جائے گا- جب میں نے اس امتیازی سلوک کی وجہ دریافت کی تو بتایا گیا کہ تمہاری بیت اللحم میں موجودگی سکیورٹی رسک ہے- نہ صرف مجھے ہراساں کیا گیا بلکہ نہایت تضحیک آمیز انداز میں وہاں 6 گھنٹے کی غیرقانونی حراست میں رکھا گیا- آخرکار ایک اور افسر نے آکر مجھے فیصلہ سنایا کہ تمہارے بیت اللحم میں داخلے پر 8 دن کی پابندی عائد کردی گئی ہے اور تمہارا نام تمام چیک پوسٹوں کو دیدیا گیا ہے- جب میں نے پوچھا کہ آخر میں نے قانون کی کونسی خلاف ورزی کی ہے جو مجھے یہ سزا دی جارہی ہے تو اس نے کہا کہ میں ایک سکیورٹی افسر ہوں اور میرا کام اوپر سے موصول ہونیوالے احکامات کی تعمیل ہے- میرے ساتھ یہ برتاؤ پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ پہلے بھی اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں- اسی لئے میں نے ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے مزید بحث کرنے سے احتراز کیا- رات 3:30 بجے ہرین میں سکیورٹی فورسز کے دفتر کی جانب سے سمن موصول ہونے کے بعد مجھے رہا کیا گیا-
میری دانست میں سکیورٹی ایجنسی کا یہ سلوک احمقانہ ہی نہیں لاحاصل بھی ہے- میرا شمار ان چند فلسطینی صحافیوں میں ہوتا ہے جو غیرملکی قارئین کیلئے انگریزی میں لکھتے ہیں- ہم عالمی برادری کو اسرائیل کے وحشیانہ اور مجرمانہ اقدامات سے آگاہ کرتے ہیں اور فلسطینی باشندوں کے حقوق پامال کئے جانے پر آواز اٹھاتے ہیں اور اس کے بدلے ہماری حوصلہ افزائی کے بجائے فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے ہمیں ہراساں کیا جاتا ہے- میں جانتا ہوں کہ سکیورٹی ایجنسی کے اس ’’حسن سلوک‘‘ کا باعث کوئی تعصب نہیں بلکہ صرف جاہلیت اور حماقت ہے لیکن یہ کوئی جواز نہیں- احمق اور بیوقوف لوگ فلسطینی مفادات کا تحفظ نہیں کرسکتے-
اگرچہ اس احمقانہ حرکت سے میرے کام پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور ایسے ہتھکنڈے مجھے اپنے مقصد سے نہیں ہٹا سکتے تاہم جو لوگ انصاف کے حصول کی جدوجہد میں میڈیا کے کردار سے واقف ہیں انہیں سکیورٹی ایجنسی کی ان احمقانہ حرکتوں کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہو- ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے وگرنہ کوئی ہمارا احترام کرے گا نہ ہمیں سنجیدگی سے لے گا-