پنج شنبه 01/می/2025

لائبرمین ہٹلر سے نفرت کے نام پر ہٹلر ہی کے راستے پر

جمعرات 6-اگست-2009

اویگڈور لائبر مین، جو نسل پرست متنازعہ اسرائیلی ریاست میں نسلی امیتاز کا زبردست پرچار کر رہے ہیں اس نے دنیا بھر میں صہیونی سفارتخانوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ 1941ء کے ایک فوٹو کو وسیع پیمانے پر پھیلائیں جس میں بیت المقدس کے سابق مفتی الحاج امین الحسینی کو نازی جرمنی کے لیڈر اڈولف ہٹلر کے ساتھ ساتھ ملاتے دکھایا گیا ہے، لائبرمین نے امید ظاہر کی ہے کہ اس تصویر سے صہیونی حکومت کے خلاف بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ کو کم کرنے میں مدد ملے گی- اسرائیل پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف فلسطینی علاقوں خصوصاً مقبوضہ بیت المقدس میں نسلی تطہیرکا سلسلہ بند کردے –

اس تصویر کو پھیلانے سے لائبرمین کا ایک مختلف وزیرخارجہ ہونے کا تصور بڑھتا جا رہا ہے- لائبرمین کا عالمی برادری نے اپنے ریڈیکل نسل پرست خیالات کی وجہ سے بائیکاٹ کررکھاہے- اسرائیل کو اچھوت ریاست کی حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے یہاں تک کہ اسرائیلی وزیردفاع ایہود باراک نے کہاہے کہ وزیرخارجہ کوامریکی اور یورپی افسران سے ملاقات کے دوران محتاط الفاظ کااستعمال کرنا چاہیے- لائبرمین کے اقدامات سے ممکن ہے کہ کئی لوگوں کوتشویش لاحق ہو، کیونکہ ان خیالات کا اظہار ایک ایسا شخص کررہاہے کہ جس کے خیالات اور خیالات کا منہج اڈولف ہٹلر سے مختلف نہیں ہے –

 لائبرمین یہودی قوم پرستی کے ساتھ وہی معاملہ کررہاہے جو معاملہ ہٹلر کا اپنی قوم کے ساتھ رہاہے- لائبرمین ہمسایہ ممالک کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتا ہے جو ہٹلر نے اپنے ہمسایوں کے ساتھ کیاتھا اور اس نے پولینڈ اور یورپ کے کئی علاقوں پر قبضہ کرلیاتھا- مثال کے طور پر لائبرمین تجویز پیش کرچکا ہے کہ غزہ کی پٹی پر بم چلا دیا جائے- فلسطینی بازاروں پرلگاتار بم باری کی جائے، فلسطینی مکانات اور آبادیوں پر مسلسل بارود گرایا جائے تاکہ لاکھوں فلسطینی اپنے گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوں اور یہودی آبادکاروں کو موقع مل سکے کہ وہ خالی کردہ علاقوں میں آکر قیام پذیر ہوسکیں- لائبرمین یہ تجویز بھی پیش کرچکاہے کہ فلسطینی سیاسی قیدیوں کو بحیرہ مردار میں پھینک دیا جائے ،تہران پر بم گرادیئے جائیں اور مصر کے اسوان ڈیم کو بمباری کے ذریعے زمین بوس کردیا جائے –

حقیقت یہ ہے کہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والا لائبرمین زمین پر موجود لوگوں میں سے وہ آخری فرد ہوگا کہ جو جرات کرسکے کہ جو امین الحسینی پر یہ تنقید کرلے کہ انہوں نے ’’تیسری دولت مشترکہ ‘‘(Third Reich)کے راہنما سے مختصر ملاقات بھی کیوں کی تھی -کیا لائبرمین یہ بتانے کی جرات کریں گے کہ کتنے صہیونی لیڈر ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو ہٹلر کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش کی تھی، کیا وہ یہ بتانے کی جرات کریں گے کہ وہ کون سے یہودی فوجیوں اور افسروں نے ورماخت ،گستاپو اور ایس ایس میں شرکت کی تھی- نیز ’’تھرڈ ریخ ‘‘ اور یہودیوں کی دہشت گرد تنظیموں کے باہمی تعلق کے بارے میں کیا خیال ہے، مثلاً سٹرن گینگ جو فلسطین میں کام کر رہی تھی-

نیز یہ کہ صہیونیوں اور نازیوں کے باہمی تعلقات کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جب صہیونیوں نے یہ تسلیم کرلیاتھاکہ یورپی یہودیوں کو شمالی امریکہ منتقل کرنے کی بجائے مار ڈالا جائے- آنجہانی اسرائیلی لیڈر اور دانشور اسرائیل شحاک کا کہناہے کہ یہودی فوجی جو نازی سیکورٹی کے محکمے میں ملازم تھے وہ مقامی یہودی آبادی سے بہت خوفزدہ تھے- شحاک جو ہولوکاسٹ سے بچ نکلاتھا، کا کہناہے کہ جب ایک یہودی ماں نے اپنے بیٹے کو کہیں بھیجا تو اس نے اسے بتایا کہ وہ جرمن چیک پوائنٹ سے گزرے ،یہودیوں کے زیر کنٹرول چیک پوائنٹ سے نہ گزرے –

امین الحسینی ایک ایسے فرد تھے جنہوں نے اپنا وطن دیکھا تھا اپنے آباؤ اجداد کی سرزمین دیکھی تھی، جس پر برطانیہ کے زیر اثر صہیونی گروپوں نے قبضہ کرلیاتھا اور ان کا یہ خیال تھا کہ (یہ غلط بھی ہوسکتاہے اور درست بھی ہوسکتا ہے )کہ اس دور کی عالمی قوت (جرمنی ) ان کے ملک کی مدد کرسکے گی اور ان کو اوران کی قوم کو آزادی مل سکے گی- یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ صہیونیوں کو تو اس کی اجازت ہے کہ وہ نازیوں سے تعاون کریں تاکہ صہیونیوں کی زندگیاں بچائی جاسکیں لیکن ایک فلسطینی قوم کے راہنما کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جو اپنی قوم کو یہودیوں کے ہاتھوں سے تباہی سے بچانے کے لئے عالمی طاقت کے راہنما سے ملاقات کرے- یہ درست ہے کہ ہٹلر ایک اجتماعی قاتل تھا جس کی مثال نہیں ملتی لیکن ان یہودی اجتماعی قاتلوں کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جو ہٹلر سے پہلے تھے اور ہٹلر کے بعد میں آئے-
 
آج اسرائیل کے سکولوں میں طالب علم ہائی سکول کی تعلیم مکمل کرلیتے ہیں اور انہیں Genrikh Yagodaکے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا جوکہ تمام ادوار میں سب سے ظالم انسان کے طور پر جانا جاتاہے- یاگودہ وہ شخص ہے جس نے سٹالن کے تبادلہ آبادی کے پروگرام پر عمل درآمد کرایا تھا اور ایک کروڑانسانوں کی ہلاکت کا ذمہ دارتھا- اس کے یہودی نازیوں نے نسل کشی کے نظام پر عمل درآمد کرایا- سٹالن کے بعد کسی نے بھی اس کا نام احترام سے نہ لیا –

یاگودہ کو معزول کردیا گیا اور بعد ازاں پھانسی بھی دے دی گئی- ایک اور یہودی لازاز کگانووچ ہے جو سٹالن کا مشیر تھا اور اس نے یوکرائن کے کروڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیاتھا-1932-333میں جب موسم سرما میں شدید سردی پڑی تھی، کگانووچ نے جومصنوعی قحط پیدا کیا وہ خوفناک حدوں کو چھونے لگا اور یوکرائن کے لوگ مجبور ہوگئے کہ وہ اپنے گھروں کے پالتو جانوروں،بلیوں ،درختوں اور درختوں کی چھال کو کھاجائیں، کچھ والدین نے اپنے معصوم بچے تک کھالئے- یہ بڑی عجیب بات ہے کہ صہیونی اپنے آپ کو اس طرح پیش کرتے ہیں گویا کہ وہ نازی ازم کی ضد میں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمام صہیونی کردار نازی کرداروں سے مشابہہ اور ان کی نقل ہیں- مثال کے طور پر صہیونیوں نے اپنے آپ کو ایک منفرد لسانی وحدت قرار دے رکھا ہے جس طرح نازیوں نے اعلان کررکھاتھاکہ وہ نسلی و لسانی طور پر مختلف ہیں اور مختلف رہناچاہتے ہیں- صہیونیوں اور نازیوں نے کوشش کی ایک ایسی ریاست بنائی جائے کہ جسے پاک صاف کرنے کے لئے تشدد کو استعمال کرنے میں کوئی حرج (نازی جرمنی )نہیں ہے اور اس کے لئے مضبوط ارادے (صہیونی اسرائیل ) انتہائی ضروری ہیں-

ان دونوں مثالوں میں نسلی تطہیر وہ بنیادی عنصر تھا جس کو استعمال کیاگیا نسلی تطہیر کا کام نازیوں نے جرمنی میں کیاتاکہ صرف نازیوں کی ریاست یورپ میں اور صرف یہودیوں کی ریاست اسرائیل میں قائم کی جاسکے- نازی ریاست کو درست ثابت کرنے کے لئے نازیوں نے ماسٹر قوم کاتصورپروان چڑھا یا جبکہ صہیونیوں نے صہیونیت کو قابل قبول بنانے کے لئے منتخب قوم کا پرانا تصور متعارف کرایا-اس کے باوجود ہم نسل پرست صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطین پر قبضے اور وہاں یہودی آبادکاروں کو بسانے کو فراموش نہیں کرسکتے- اسی طرح یہ بھی فراموش نہیں کیاجاسکتا کہ نازیوں کی کوشش تھی کہ پولینڈ کو خالی کرالیا جائے اور مقامی آبادی کو وہاں رہنے بسنے کا موقع فراہم کیا جائے-

یورپ میں نازیوں نے کوشش کی تھی کہ Sudenten landحاصل کرلیں گے اور یہودیوں کی یہ کوشش تھی کہ فلسطین پر قبضہ جمالیا جائے اور انہیں اس کی کوئی پروا ہ نہیں تھی کہ ان مراحل میں کس قدر انسان ہلاک ہوں گے- اسرائیل کے ذریعے فلسطینیوں کی سرزمین پر نازی طرز کے قبضے کو چند یہودیوں کا اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا- حقیقت سے کبھی بھی انکار نہیں کیاجاسکتا- اسرائیل کا قیام صرف فوجی اسٹیبلشمنٹ کا قیام بھی نہیں ہے- اسرائیل کا قیام اخلاقی طور پر گری ہوئی قوم کی ایک اجتماعی کارکردگی ہے جس نے اپنی انسانیت کھودی ہے اور اس کاکردار نازی جرمنی سے کہیں زیادہ خوفناک ہے جو انہوں نے ساٹھ برس قبل ادا کیاتھا-

مثال کے طور پر صہیونیت نے تمام یہودیوں کو ایک ممتاز قوم قرار دیا ہے بالکل اس طرح جیسے نازیوں نے تمام جرمنوں کو ایک ممتاز قوم قرار دیا تو صہیونیوں اورنازیوں دونوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ ایک ایسی ریاست تعمیر کی جائے جو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک ہو- نازی جرمنی نے اس مقصد کے لیے نسلی تطہیر کا طریقہ اختیار کیا جبکہ صہیونی اسرائیل نے ’’لوہے کی دیوار‘‘ کا تصور اپنایا-

دونوں مثالوں میں نسلی تطہیر وہ بنیادی طرز عمل تھا جس کے ذریعے ’’کم تر لوگوں‘‘ کو نکال باہر کرنے کا پروگرام بنایا گیا- ان کم تر لوگوں کے لیے ’’ماشکیوں اور لکڑہاروں‘‘ کا کردار چنا گیا- یورپ میں ’’صرف جرمنوں کے لیے‘‘ اور فلسطین میں ’’صرف یہودیوں کے لیے‘‘ آباد کاریاں قائم کی گئیں-

حقیقت یہ ہے کہ یہودی قوم سوشلزم (صہیونیت) اور جرمن قومی سوشلزم (نازیت) میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہے- نازیوں نے نازی کردار کو درست ثابت کرنے کے لیے ’’ماسٹر قوم‘‘ کا تصور متعارف کرایا جبکہ صہیونیوں نے صہیونیت کے لیے ’’منتخب قوم‘‘ کا پرانا نعرہ بلند کردیا- علاوہ ازیں صہیونیوں نے فلسطین پر جس طرح قبضہ کیا اور وہاں یہودی آبادکار لا بسائے اور وہاں موجود فلسطینی مسلمانوں اور عیسائیوں کو اکھاڑ پھینکا اسی طرح نازیوں نے پولینڈ میں Lebensraum کیا تھا اور ’’آریاؤں‘‘ کو لا بسایاتھا اور وہاں کی مقامی آبادی کو تہہ تیغ کرڈالاتھا-

یورپ میں نازیوں نے کوشش کی کہ سودنتن لینڈ کو چرا لیا جائے- یہی کام صہیونیوں نے فلسطین میں کیا ہے- صہیونی مغربی کنارے کی زمین ہڑپ کررہے ہیں- دلائل ایک ہیں جھوٹ ایک جیسے ہیں اور ذرائع بھی کم و بیش ملتے جلتے ہیں-

ضرورت ہے کہ صہیونیت اور نازیت کے درمیان جو نکات اشتراک پائے جاتے ہیں ان کو ابھارا جائے، چاہے ان کی وجہ سے کتنے ہی لوگ بے چین ہوں آخر سچ بھی تو ایک مستقل حقیقت کا نام ہے-
اسرائیل کے فلسطین پر نازی طرز کے قبضے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ چند اسرائیلیوں کا اقدام ہے- یہ صرف فوجی سٹیبلشمنٹ کا بھی کام نہیں ہے- یہ اخلاقی طور پر زوال پذیر ایک ایسی قوم کا کردار ہے کہ جو اپنی انسانیت سے محروم ہو چکے ہیں اور ان کی اخلاقیات پر اسی طرح پٹی باندھ چکی ہے جس طرح ساٹھ برس پہلے نازی جرمنوں کی آنکھوں پر بندھ چکی تھی-

کئی واقعات ایسے ہیں کہ جن کی بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ فلسطینیوں پر جرم نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے ظلم سے کہیں زیادہ ہے- یہودی آج تک ان نقصانات کے ہر جانے وصول کررہے ہیں کہ جو انہیں ساٹھ ستر برس ہوئے تھے جن فلسطینیوں کے گھر تباہ ہوگئے- اراضی چھین لی گئی اعزا و اقارب کو قتل کردیا گیا- انہیں ہرجانے کی کوئی رقم نہیں ملتی-

امریکہ کے ہر جونیئر ہائی سکول میں آج طالب علم این فرینک پڑھتے ہیں جبکہ ہائی سکول میں ایلی ویزل کی Night کا مطالبہ لازمی ہے- یہ وہ شخص ہے کہ جو کھلم کھلا کہتا ہے کہ وہ اسرائیلی مظالم کو درست سمجھتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ میں اپنے آپ کے لیے یہ درست نہیں سمجھتا کہ میں اسرائیل کی مخالفت کروں- جو لوگ اول Kristallnacht کا شکار بنے تھے ان سے دنیا بھر میں ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن جن لوگوں نے فلسطینیوں کی پوری قوم کے دن کو رات میں تبدیل کردیا ہے ان کے خلاف کہیں کوئی آوازیں بلند ہوتی-لیکن جرمن نیشنل سوشلسٹوں کے خلاف اپنے جرائم کو چھپانے کے لیے تاریخ کو خلط ملط کررہے ہیں اور تاریخ میں جھوٹ شامل کررہے ہیں-

ہولوکاسٹ جسے آہستہ آہستہ ایک مذہب کی حیثیت دی جارہی ہیں میں بیت المقدس کے ہولو کاسٹ، عجائب گھر یا واشم کو ایسے ایک کام کے لیے منتخب کیا گیا ہے کہ وہ یہ پیغام دیتا رہے کہ یہ کام ’’دوبارہ‘‘ نہ ہوگا- یہ میوزیم عربوں سے چھینے گئے ابن کریم علاقوں پر بنایا گیا ہے- دیر یاسین میں صہیونیوں نے جس طرح فلسطینی عورتوں، مردوں، بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا اس کا کہیں تذکرہ نہیں ہے- کہا جاتا ہے کہ آج کے یہودیوں نے وہی طور طریقے اور ظلم کے راستے اختیار کرلیے ہیں جو ان پر ظلم کرنے والوں نے ان پر کیے تھے-

23 اگست 1947ء کواسرائیل کے قیام سے ایک برس قبل ھیری ٹرومین نے ایلی نور روز ویلٹ کو فلسطین میں ایک اور یہودی تشدد کے واقعے کے بارے میں تحریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے خدشہ ہے کہ یہودیوں کی مثال ایسی ہے جب کہ وہ اوپر آتے ہیں تو وہ اسی قسم کے ظالم اور پرتشدد بن جاتے ہیں جس طرح وہ لوگ تھے جو ان پر ظلم کرتے تھے-‘‘ یہ ایک تلخ حقیقت ہے لیکن یہودیوں کا یہی معاملہ ہے- فلسطین میں اسرائیل نے نازی طرز کا جو رویہ اختیار کررہا ہے یہ کہنا مشکل ہے کہ ٹرومین کے الفاظ کو غلط قرار دیا جائے- آج کے دور کے انسانوں کی ضرورت ہے کہ وہ صہیونیت کی اسی طرح مخالفت کریں جس طرح نازیت کی گئی تھی

مختصر لنک:

کاپی