اسرائیلی کاسمیٹک کمپنی ’’آہوا‘‘ کے چیف ایگزیٹو افسر یعقوب ایلس میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آزاد تجارت کے اس معاہدے سے فائدہ اٹھانے کا اعتراف کرچکے ہیں- ’’آہوا‘‘ کے لندن اور برلن سمیت کئی اہم شہروں میں اپنے سٹور ہیں اور اس نے 2008ء میں فرانس کی پرفیوم ساز کمپنی ’’سیفورا‘‘ کے ساتھ ایک معاہدے پر بھی دستخط کیے یوں اس صہیونی کمپنی کو پورٹ شمالی امریکہ، ایشیا اور مشرق وسطی تک رسائی حاصل ہوگئی ہے-
یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ دنیا اپنا مکروہ چہرہ چھپانے کیلئے اسرائیلی کمپنی کی جو کاسمیٹک اشیاء استعمال کرتی ہے وہ اسرائیل کے مقبوضہ علاقے مغربی کنارے میں بحر مردار سے حاصل ہونے والے معدنیات سے تیار ہوتی ہیں- عالمی قوانین کے مطابق مقبوضہ علاقوں میں تیار ہونے والی اشیاء کو ڈیوٹی فری شمار نہیں کیا جاسکتا مگر متذکرہ بالا کمپنی بغیر ٹیکس ادا کیے اپنی مصنوعات یورپی ممالک کو فروخت کررہی ہے-
’’آہوا‘‘ کے تمام پیداواری یونٹ مغربی کنارے کے علاقوں متزپی شالم اور کالیا میں قائم ہیں اور یہاں پر چالیس فیصد مصنوعات تیار ہوتی ہیں- اس معاملے کا ایک الم ناک پہلو یہ ہے کہ بحر مردار کا ایک تہائی ساحلی علاقہ مغربی کنارے سے ملحق ہے لیکن اسرائیل کی جکڑ بندیوں کے باعث فلسطینیوں کے اس سے استفادہ کرنے کی اجازت نہیں- سنہ 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ کے فوراً بعد کالیا کو صہیونی حکام نے فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا تھا اور اس وقت سے یہ علاقہ یہودی قبضے میں ہے- بعد میں سنہ 2004ء میں عالمی عدالت انصاف نے بھی مقبوضہ علاقوں میں صنعتوں کے قیام کو غیر قانونی قرار دیا مگر اس کے باوجود ’’آہوا‘‘ کمپنی کے پیداواری یونٹ بدستور کام کررہے ہیں جو عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے-
کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ایلس کہتے ہیں کہ ان کی مصنوعات اس لیے ڈیوٹی فری فروخت ہونے میں حق بجانب ہیں کہ ان کی کمپنی کے تمام دفاتر تل ابیب میں ہیں، لیکن یورپی یونین کے مطابق یہ دیکھا جاتا ہے کہ کمپنی کی مصنوعات کہاں تیار ہو رہی ہیں نہ یہ کہ اس کے دفاتر کہاں ہیں-
عالمی قوانین کی رو سے ’’آہوا‘‘ یورپی یونین کو ٹیکس دینے کی پابند ہے اور برطانوی ٹیکس حکام کو اس سلسلہ میں خاصی تشویش لاحق ہے- برطانوی حکمران جماعت کے رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر فیلس سٹارکی نے 17 نومبر 2008ء کو اس بارے میں آواز بلند کی تو وزیر تجارت سٹیفن ٹمز نے بتایا کہ ہر سال اسرائیل سے تجارتی سامان پر مشتمل 75000 ٹرک برطانیہ آتے ہیں- ٹمز نے وضاحت کی کہ انہیں اس بات کا علم نہیں کہ یورپی کمیشن نے ان مصنوعات کی پیداوار سے متعلق تحقیقات کی ہیں یا نہیں-
وزیر تجارت نے بتایا کہ تین سال کے دوران برطانیہ کے ریونیو اور کسٹمز ڈیپارٹمنٹ نے یہ جاننے کیلئے اسرائیلی مصنوعات مقبوضہ علاقوں سے تیار نہیں ہو رہی ہیں- اسرائیلی حکام سے اکیس مرتبہ وضاحت طلب کی- اکیس میں سے تیرہ استفسارات کا جواب دیا گیا اور ان تیرہ میں سے چھ سوالات کے جواب میں یہ اعتراف سامنے آیا کہ یہ مصنوعات مقبوضہ علاقوں میں ہی تیار ہو رہی ہیں مگر اسرائیلی تاجروں کی طرف سے اس سنگین خلاف ورزی اور دھوکہ دہی کے باوجود انہیں جرمانہ نہیں کیا گیا-
حالات کی ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف مقامی باشندوں کو بحر مردار سے استفادہ کرنے کی اجازت نہیں اور دوسری طرف اسرائیل یہاں کی مصنوعات ڈیوٹی فری برآمد کررہا ہے لیکن اسرائیل اپنا مکروہ چہرہ کاسمیٹک کی ان مصنوعات سے کب تک چھپا سکے گا؟