نقب کے علاقے سے 380 فلسطینیوں اور 4 مصریوں کو اس الزام میں گرفتار کرلیا گیا کہ انہوں نے مصر _ فلسطین سرحد کو عبور کیا اور ممنوعہ فوجی علاقے میں داخل ہوئے- یہ تعداد ان سینکڑوں لوگوں کی تعداد کے علاوہ ہے کہ جنہیں گرین لائن کے اندر سے گرفتار کیا گیا-
وزارت کے انفارمیشن دفتر کے ڈائریکٹر ریاض الاشقر نے بتایا کہ گزشتہ مہینے قابض اسرائیلی انتظامیہ نے کارروائیوں میں اضافہ کردیا ہے- اسرائیلی گن بوٹس نے دس فلسطینی ماہی گیروں کو پکڑا اور انہیں تفتیشی مرکز لے جا کر یہ سوال کرنے لگے کہ غزہ میں اسلحہ کی سمگلنگ کس طرح کی جاتی ہے- ان ماہی گیروں کو پیشکش کی جاتی ہے کہ وہ اسرائیلی فوج کے مخبر کے طور پر کام کرنا شروع کردیں اس کے بدلے میں انہیں جانے کی اجازت مل سکتی ہے-
انہوں نے مزید بتایا کہ قابض اسرائیلی انتظامیہ نے چار سالہ بچے کو اس الزام میں گرفتار کرلیا ہے کہ وہ پولیس کی گاڑیوں پر پتھر پھینک رہا تھا- علاوہ ازیں بیت المقدس کے شمال مشرق میں حزمہ گائوں سے 31 بچوں کو گرفتار کرلیا گیا- ان میں تین بچے ایسے ہیں کہ جن کی عمریں بارہ سال سے کم تھیں- انہوں نے مزید بتایا کہ قابض اسرائیلی انتظامیہ نے تین خواتین کو بھی گرفتار کررکھا ہے ان میں سے ایک خاتون طالب فرحت جس کا تعلق رام اللہ سے ہے کو رام اللہ کے شمال میں عطارہ چیک پوائنٹ سے گرفتار کیا گیا اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا-
اسرائیلی فوجیوں نے اس پر حملہ کیا، اسے زمین پر گھسیٹا، پائوں سے ٹھوکریں ماریں اور جیل لے جانے سے پہلے اس کے ہاتھوں پر ہتھکڑیاں لگائی اور اس کی آنکھوں پر پٹی باندھے رکھی-
علاوہ ازیں فلسطین قانون ساز کونسل کی رکن ڈاکٹر مریم صالح کے گھر پر حملہ کیا گیا اور اس کی تلاشی لی گئی- ان کے بیٹے صلاح کو گرفتار کیا گیا اس پر اور اس کے بھائی پر تشدد کیا گیا اس کا موبائل فون اور دستاویزات چھین لی گئیں- تشدد قیدیوں کی گرفتاری کے وقت سے شروع ہو جاتا ہے یا اس وقت شروع ہوتا ہے کہ جب وہ نظر بندی مراکز میں منتقل کیے جاتے ہیں یا جب انہیں جیل بھیجنے کے احکامات موصول ہوتے ہیں- قیدیوں کو تکلیف دہ انداز میں زنجیروں میں باندھا جاتا ہے اور وہ کسی کو تکلیف نہ بھی پہنچا رہے ہوں تب بھی ان کے ساتھ سخت سلوک روا رکھا جاتا ہے-
تشدد میں معصوم بچوں کا بھی استثناء نہیں رکھا جاتا، اگرچہ بین الاقوامی قانون میں ان بچوں کے لیے تحفظ فراہم کیا گیا ہے- اسرائیل کی انتظامیہ اور عدلیہ کو اس کا علم ہوتا ہے اور وہ تشدد کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے- کمیٹی کے مطابق ایسے قیدیوں کی تعداد 600 سے متجاوز ہے کہ جو بدترین تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں-
انسانی حقوق کی دو تنظیموں بیت سلم اور حموکو نے اپنی کئی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ اسرائیلی سیکیورٹی سروس سے تعلق رکھنے والے افراد فلسطینی قیدیوں کو نفسیاتی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور کبھی کبھار ایسے طریقے بھی استعمال کرتے ہیں کہ جو بین الاقوامی میں ممنوع ہیں- الاشقر نے مزید بتایا کہ قابض اسرائیلی انتظامیہ کی جانب سے قیدی مریضوں کی زندگی کا کوئی احترام نہیں کیا جاتا اس کی وجہ سے ان کی صحت تیزی سے زوال پذیر ہو رہی ہے اور ان میں سے کئی مریض ایسے ہیں کہ جن کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے- جنین سے تعلق رکھنے والے قیدی منازل شرقادی کو ادویات نہ مل سکیں جس کی وجہ سے وہ سکتے میں چلا گیا ہے-
اسی اثناء میں ڈاکٹروں نے اعلان کیا ہے کہ خان یونس کے قیدی عماد الدین ضروب کو سرطان کا مرض لاحق ہو چکا ہے- اس کی بغلوں میں کافی عرصے سے گلٹیاں نکل رہی تھیں لیکن کسی کو اس کے علاج کی پرواہ نہ تھی- اس کا نتیجہ اس خوفناک مرض کی صورت میں نکلا اور سرطان اس کے سارے جسم میں پھیل چکا ہے-
ریاض الاشقر نے مزید بتایا کہ رملے جیل ہسپتال میں 26 سالہ محمود سنکارہ کے دو آپریشن ہوئے- اس کے حرام مغز کے مہرے تشدد کے سبب ہل گئے تھے- الخلیل کے ایک اور قیدی عاطف محمود وریدت کی حالت بہت نازک ہے کیونکہ وہ بیک وقت ذیابیطس، امراض قلب اور فشار خون کے امراض کا شکار ہے-
انہوں نے بتایا کہ جنین سے تعلق رکھنے والے قیدی علی محمود صفوری کے جسم پر گلٹیاں نمودار ہو رہی ہیں اور اس کے سارے جسم پر پھیلتی جارہی ہیں اور حضارم جیل انتظامیہ نے اس کا علاج کرانے سے انکار کردیا ہے- نابلس شہر سے تعلق رکھنے والے سنان محمد ابو عاءش چھ برس کی سزا بھگت چکا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی سزا میں دوبار اضافہ ہوا ہے- جنین سے تعلق رکھنے والے قیدی ہاشم عزموتی کی نظر بندی میں بھی پانچویں بار اضافہ ہوا ہے- الخلیل کی خاتون قیدی شیام غوذ کی انتظامی نظر بندی میں دوسری بار اضافہ کیا گیا ہے-
ریاض الاشقر نے رپورٹ کے حوالے سے مزید بتایا کہ غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے صبحی عبد اللہ ابو لوز ابھی تک قابض اسرائیلی انتظامیہ کی جیل میں ہیں اور ان کو ڈھائی سال قید کی سزا ملی تھی- اس سزا کو ختم ہوئے نو ماہ گزر چکے ہیں لیکن اس کو رہا نہیں کیا جارہا- اس سے کہا جارہا ہے کہ اس کے والدین کی شہریت مصر کی ہے اور اس کے پاس مصری کاغذات ہیں اس لیے کچھ ضروری کارروائیاں کرنا باقی ہیں-
اوفر کی فوجی عدالت نے طولکرم کے قیدی کمال جمیل ابو شنب کو تین بار عمر قید کی سزا سنائی تھی- بئر شیبہ کی عدالت نے غزہ کی پٹی کے قیدی کو انیس سال کی سزا سنائی تھی اور قیدی موسی آدم الخلیل کو عمر قید کی سزا سنائی تھی-
ریاض الاشقر کا کہنا ہے کہ قید تنہائی میں وقت کاٹنے والے افراد کی اذیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے- قابض اسرائیلی انتظامیہ نے مختلف جیلوں میں کئی لوگوں کو قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے- ان میں ایسے قیدی بھی ہیں کہ جن کو دس دس سال قید تنہائی کی سزا ملی کچھ قیدیوں کو یہ اندیشہ ہے کہ انہیں اردن بھیج دیا جائے گا- طوباس سے تعلق رکھنے والے دو بھائی طالب اور عمر ابن عودہ کی مثال پیش کی جاتی ہے کہ جن کی سزائیں ختم ہوئے ایک سال گزرچکا ہے لیکن ان کو رہا نہیں کیا گیا- گزشتہ مہینے فلسطینی قیدی فخری برغوثی جنہیں دوسرے نمبر پر سب سے طویل اسرائیلی قید کاٹنے کا تجربہ ہے نے جیل میں اکتیسواں برس مکمل کیا اور جیل میں ان کا بتیسواں برس شروع ہوگیا- فلسطینی قیدی جنہوں نے بیس برس سے زائد کا عرصہ جیل میں گزار لیا ہے- ان کی تعداد 103 سے متجاوز ہو چکی ہے-
وزارت اطلاعات کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جیل اتھارٹی نے ان قیدیوں کے خلاف معاندانہ کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے کہ جو قیدیوں والے نارنجی رنگ کے یونیفارم نہیں پہنتے- ان فلسطینی قیدیوں کے خلاف معاندانہ کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے ان میں’’ قید تنہائی‘‘ ، 520 ڈالر فی قیدی جرمانہ اور ان کے اہل خانہ کی طرف سے لائے گئے لباس ان تک نہ پہنچنے دینے کی سزا شامل ہے- یہ اقدام اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ وہ جیل کا لباس پہننے پر مجبور ہو جائیں- جیل انتظامیہ نے کئی قیدیوں کے لباس بھی ضبط کرلیے ہیں-
اسرائیل کی ابلاغی مہم کے برعکس یہ حقیقت ہے کہ فلسطینی قیدیوں پر تشدد کیا جاتا ہے- اسرائیل کی کمیٹی برائے تشدد نے اسے تسلیم کیا ہے جس کی رپورٹ پچھلے ماہ شائع ہوئی ہے- اس میں تسلیم کیا گیا ہے کہ فوج اور تفتیشی افسر فلسطینی قیدیوں کے خلاف اسی وقت تشدد کا آغاز کر دیتے ہیں کہ جب وہ جیل میں پہنچتے ہیں کمیٹی کا کہنا ہے کہ اس نے چھ سو سے زائد ایسے قیدیوں سے ملاقات کی جنہوں نے بتایا کہ ان پر تشدد ہوا ہے
–