رپورٹ میں اسرائیلی فوجیوں کے حوالے سے کہاگیا ہے جنگ کے دوران جب فوج کو زمینی کارروائی کی ہدایت دی گئی تواس دوران اعلیٰ افسران نے فوجی اہلکاروں سے کہا کہ وہ حملوں میں بلاامتیازشہریوں کو نشانہ بنائیں۔ جنگ کے بعد سولین کی ہلاکتوں پرانہیں اگر پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑا تواعلیٰ افسران انہیں تحفظ فراہم کریں گے۔
رپورٹ کے مطابق ایک اعلیٰ افسردوران جنگ ہدایات دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ” ہم اپنے کسی فوجی اہلکار کا بال بیکا ہوتانہیں دیکھنا چاہتے، اس سلسلے میں فوجیوں کو باضابطہ طورپرہدایت کی گئی ہے کہ جنگ کے دوران وہ معمولی شک پربھی اندھا دھند فائرنگ کرکے دشمن کو ختم کردیں”۔
رپورٹ میں غزہ جنگ کے دوران عینی شاہدین کے مشاہدات بھی شائع کیے گئے ہیں۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ کس طرح قابض اسرائیلی فوجی دوران جنگ شہریوں کو انسانی ڈھال کے طوپراستعمال کرتے رہے۔ جنگ کے دوران ایسے شواہد بھی ملے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے یہودی مذہبی پیشواؤں اورربیوں کی جانب سے بھی فوج کو فلسطینی شہریوں کے وحشیانہ قتل عام کی نہ صرف اجازت دی گئی ہے بلکہ اسے کار ثواب قراردیاگیا ہے۔ یہودی ربیوں کی ہدایت کے مطابق قابض فوج نے غزہ میں عالمی سطح پرممنوعہ وائٹ فاسفورس کا بے دریغ استعمال کرکے بڑی تعداد میں شہریوں کا قتل عام کیا۔
رپورٹ میں جنگ میں شریک30 فوجیوں کے تاثرات قلم بند کیے گئے ہیں۔ اس سے قبل انہی تیس فوجیوں کے اقوال جنگی جرائم کی شہادتیں سابقہ فوجیوں کی ایک تنظیم نے بھی اپنے طور پرشائع کی ہیں۔