پنج شنبه 01/می/2025

کیا عباس، دحلان نے یاسرعرفات کے قتل کی سازش تیار کی؟

جمعرات 16-جولائی-2009

اردن کے دارلحکومت عمان میں بارہ جولائی کو ایک اہم پریس کانفرنس میں فتح کے جنرل سیکرٹری فاروق قدومی نے انکشاف کیا کہ فلسطینی انتظامیہ کے رہ نما محمود عباس اور غزہ میں ان کے سابق حلیف اور سیکیورٹی امور کے نگران محمد دحلان نے امریکی سی آئی اے اور اسرائیل کی معاونت سے یاسر عرفات کو قتل کیا۔
فاروق قدومی نے کہا کہ مرحوم صدر یاسر عرفات نے انہیں محمود عباس، محمد دحلان، امریکی انٹیلیجنس اہلکاروں اور اسرائیلی وزیر اعظم کے درمیان ہونے والے ایک ملاقات کے مندرجات پر مبنی تحریر دکھائی۔ یہ ملاقات مبینہ طور پر 22 مارچ 2004 کو ہوئی۔

فاروق قدومی کو دکھائی جانے والی دستاویز، جس کی کسی دوسرے آزاد ذریعے سے تصدیق نہیں ہو سکی، کے مطابق ملاقات میں ارئیل شیرون نے محمود عباس اور محمد دحلان سے کہا کہ یاسر عرفات کو زہر دیکر قتل کر دیا جائے۔

دستاویز کے مطابق محمود عباس نے اس "تجویز” پر یہ کہتے ہوئے احتجاج کیا کہ یاسر عرفات کو قتل کرنے سے معاملات گنجلک ہو سکتے ہیں، جس سے بہت سی مشکلات پیدا ہونے کا امکان ہے۔ دستاویز کے عربی متن میں ارئیل شیرون سے درج ذیل بات منسوب کی گئی ہے جو انہوں نے مبینہ طور پر محمد دحلان اور محمود عباس کو ملاقات میں کہی: "

آغاز میں ہمیں حماس، جہاد اسلامی، الاقصی بریگیڈ اور پاپولر فرنٹ کی سیاسی اور عسکری قیادت کو قتل کر کے ان تنظیموں کی صفوں میں افراتفری پیدا کرنی چاہئے۔ یہ کام کرنے کے بعد آپ کے لئے انہیں ختم کرنا آسان ہو گا۔”

جہاں تک یاسر عرفات کا تعلق ہے تو جب تک وہ رام اللہ میں اپنے ہیڈکوارٹر میں براجمان ہے تو آپ لوگوں کے لئے اس قتل کرنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ وہ چالاک لومڑی ماضی کی طرح اب بھی آپ کو حیران کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسے (یاسر عرفات)  کو آپ کے ارادوں کا حتمی طور پر اندازہ ہے، اسے لئے وہ انہیں ناکام بنا دے گا۔”

اس کے شیرون نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: ” پہلا قدم کے یاسر عرفات کو زیر دیکر ہلاک کر دیا جائے۔ میں اس بار اسے کسی ایسی جلاوطنی پر نہیں بھیجنا چاہتا کہ جس میں مجھے اس بات کا یقین نہ ہو جائے جلاوطن کئے جانا والا ملک انہیں اپنے ہاں ہمیشہ کے لئے نظر بند رکھے گا۔”

آگے چل کر دستاویز میں شیرون مبینہ طور پر اسلامی تحریک مزاحمت اور اسلامی جہاد کے ان رہ نماوں کے نام لیتا ہے کہ جنہیں قتل کیا جانا مقصود ہے۔ ان رہ نماوں میں ڈاکٹر عبد العزیز الرنتیسی بھی شامل تھے جنہیں اسرائیل نے 17 اپریل 2004 کو شہید کیا۔”

فاروق قدومی کی جانب دکھائے جانے والی دستاویز سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ امریکا-اسرائیل یاسرعرفات سمیت دوسری مزاحمتی تنظیموں کی قیادت کو قتل کر کے کیا حاصل کرنا چاہتے تھے۔ تاہم دستاویز کے سیاق و سباق سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان رہ نماوں کو کنارے لگا کر ان کے جگہ ایک ایسی قیادت کو سامنے لانا تھا کہ جو فلسطینی عوام کو اسرائیل کے ساتھ کئے جانے والے امن معاہدہ کو تسلیم کرنے کے لئے ذہنا اور عملا تیار کر سکے۔ اسرائیل سے ساز باز میں یقین رکھنے والی یہ متبادل قیادت بعد ازاں اسرائیل کو فلسطینی معاملات میں اس قدر دخیل کر دے کہ اس کے ایماء پر فلسطینیوں سے اسرائیل کی ہر بات بہ آسانی منوائی جا سکے۔فاروق قدومی فتح کے ایک نمایاں رہ نما ہیں، ان کی جانب سے کئے جانے والے چشم کشاء انکشافات کو ان کے مخالفین کی طرح مخالفت برائے مخالفت قرار دیکر رد نہیں کیا جا سکتا۔

ان انکشافات کی بنا پر اگر محمود عباس کو کوئی سزا نہیں دی جا سکتی تو بعنیہ یہ سب صورتحال انہیں معصوم ثابت کرنے کے لئے بھی ناکافی ہے کیونکہ محمود عباس کا معاملہ مشکوک ہے۔مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک مرتبہ یاسر عرفات کی وفات سے دو روز قبل ان کے قریبی دوست سقر حباش سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ "مجھے سو فیصد یقین ہے کہ ‘ان’ لوگوں نے اسے ہلاک کیا ہے۔”

میں نے جب ان سے قاتلوں کی شناخت جاننے کے لئے دباو ڈالا تو انہوں نے کہا کہ "تم ان لوگوں کو جانتے ہو، میری مراد یاسر عرفات کے گرد منڈلانے والے اسرائیلی ایجنٹوں نے اسے ہلاک کیا۔”

محمد دحلان

یاسرعرفات کو زہر دیکر کر قتل کرنے کے بارے اگر چند لوگ محمود عباس کا نام نہایت محتاط ہو کر لے رہے ہیں تو دوسری جانب ان کے دست راست محمد دحلان کے امریکیوں اور اسرائیلیوں کے ساتھ باغیانہ انداز کے راز و نیاز دیکھتے ہوئے بہت سے فلسطینیوں کو یقین ہے کہ وہ اس خونی منصوبے میں شریک رہے ہوں گے۔
میں نے چند سال پہلے ایک ریکارڈ کردہ خفیہ ٹیپ سنی جس میں محمد دحلان غزہ کے "الحریۃ ریڈیو” سے منسلک اپنی کسی حمایت کو بریفنگ دے رہے تھے۔ بریفنگ کے دوران محمد دحلان کہہ رہے تھے "میں قسم کھاتا کہ حماس ایک دن سنہ 2006  کے انتخابات میں اپنے شرکت کے فیصلے پر ضرور نادم ہو گی۔”

"میں انہیں ان کا فضلہ کھانے پر مجبور کر دوں گا اور اگر فتح کے کسی رکن نے حماس حکومت میں شامل ہونے کی کوشش کی، تو ایسے لوگوں سے نپٹنا مجھے خوب آتا ہے۔”محمد دحلان نے اسی بریفنگ میں مزید ہولناک بیانات دیئے جن کا صفحہ قرطاس پر منتقل کیا جانا اخلاقی اعتبار سے قابل تحسین نہیں سمجھا جائے گا۔
سنہ 2008ء میں مشہور امریکی جریدے "وینیٹی فیئر” نے "حماس حکومت کے خاتمے کی خاطر فلسطینیوں کے درمیان خانہ جنگی پیدا کرنے کے لئے بش انتظامیہ نے کانگریس اور مسلح فتح کیساتھ کیسے دوروغ گوئی سے کام لیا” کے عنوان سے مفصل تحقیقاتی رپورٹ شائع کی۔

اس رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاوس نے سنہ دو ہزار چھے کے انتخابات میں حماس کی لینڈ سلائیڈ کامیابی کے بعد ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی مسلح کوشش کو منظم کرایا۔ یقینا اس بغاوت کا سرغنہ محمد دحلان تھا، جسے حماس کے خاتمے کے لئے یہ مشن سونپا گیا کہ وہ اسرائیل کے تعاون سے تحریک مزاحمت کے رہ نماوں کو یا تو گرفتار کر لے یا پھر انہیں شہید کر دے۔

"وینیٹی فیئر” کی رپورٹ کے مطابق بش انتظامیہ نے کانگریس سے جھوٹ بول کر فتح کو دی جانے والی فوجی امداد میں اضافہ کرایا تا کہ فلسطین میں خانہ جنگی کو ہوا دی جا سکے۔ اس منصوبے کے کارپردازوں کا خیال تھا کہ شاید ایسے کرنے سے وہ حماس کو شکست دے دیں گے۔

"وینیٹی فیئر” نے اپنی اس رپورٹ میں فتح کی ناکام کوشش کو “Iran Contra 2” سے تعبیر کیا۔ یاد رہے کہ امریکی صدر ریگن کی حکومت اس تعبیر کو نیکاراگوا کے باغیوں کی جانب سے ایران کو خفیہ طور پر اسلحہ کی فروخت کے منصوبوں کے اظہار کے لئے استعمال کرتی تھی۔

جریدے "وینیٹی فیئر” کی رپورٹ میں بش انتظامیہ کے ایک اہلکار ڈیوڈ ومزر کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ "حماس کا غزہ میں اقتدار میں آنا امریکی حمایت میں اس کے خلاف کی جانے والی متوقع کارروائی کا پیشگی اقدام ہو سکتا ہے۔”

اس بیان کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ محمد دحلان نے نہایت ہی بھونڈے انداز میں اپنے ہی عوام کے خلاف امریکی اور اسرائیلی جاسوسی اداروں سے ساز باز کی۔ انہی خطوط پر چلتے ہوئے ان دنوں رام اللہ میں موجود حکومت، مغربی کنارے میں مزاحمتی تنظیم حماس کو کچلنے کے لئے اسرائیل کے ساتھ سازشی تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ محمود عباس کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے یاسر عرفات کے قتل منصوبے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ تاہم وہ اور رام اللہ میں ان کی زیر کمان سیکیورٹی ایجنسیاں اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتیں کہ امریکی انٹیلیجنس اہلکار جنرل کیتھ ڈائیٹون انہیں اسلحہ اور تربیت فراہم کر رہا ہے۔ یہ تمام سیکیورٹی ادارے نہایت منظم انداز میں اسرائیل کے ساتھ ساز باز میں مصروف ہیں۔ اس ساز باز کا منتہی و مقصود مغربی کنارے سے مزاحمتی عناصر کا خاتمہ ہے۔

مغربی کنارے کے شہر قلقیلیہ میں ہونے والی حالیہ ہلاکتیں اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ مغربی کنارے میں مسند اقتدار پر براجمان فلسطینی انتظامیہ اسرائیلی قبضے کی ایک اور شکل ہے۔

علاوہ ازیں مغربی کنارے میں مزاحمتی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ، ملازمت سے برطرفیاں، ان کے زیر انتظام چلنے والے اداروں کی بندش اور ہلاکت خیز تشدد سب اس بات کا بین ثبوت ہے کہ فلسطینی انتظامیہ اندر کھاتے اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطین کے وسیع تر قومی مفاد کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

اس سے بات سے قطع نظر کہ یاسر عرفات کو کس نے زہر دیکر ہلاک کیا، یہ تمام حقائق رام اللہ کی موجودہ قیادت کے خلاف اسرائیل سے تعاون اور بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلانے کے لئے کافی ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی