دنیا کے تقریباً ہر معاشرے میں مذہبی تصورات کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے اور اگر فرد ،گروہ یا قوم اپنے مذہبی تصورات کے باعث بھی دوسروں کے تہذیب و ثقافت کے لیے عدم رواداری کا مظاہرہ کرے تو اسے اس کی اجازت نہیں دی جاتی -جیسا کہ اکیسویں صدی کے بالکل آغاز میں افغانستان کے صوبہ بامیان میں بدھا کے مجسموں کے حوالے سے دیکھنے میں آیا ہے-
افغان حکمران یعنی طالبان نے اپنے دینی عقائد کے منافی قرار دیکربدھا کے مجسموں کو توڑا تو دنیا بھر میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا- طالبان پرعدم روادار ہونے کا الزام عائد ہوا اور ساتھ ہی ساتھ اس واقعے کو انسانی تہذیب کے ایک اہم باب کے خلاف اقدام قرار دیا گیا- نتیجہ یہ رہا کہ طالبان اپنے دینی موقف پر قائم رہے -عالمی ادارے، عالمی طاقتیں اور عالمی ذرائع ابلاغ نے ایسا شور اٹھایا کہ طالبان کی حکومت امریکہ، مغربی دنیا کے لیے گردن زدنی قرار پائی- بامیان میں پیش آنے والے اس ’’تہذیبی چیلنج‘‘ سے بڑا اور سنگین چیلنج آج بیت المقدس کی تہذیبی و ثقافتی بقاء کے حوالے سے درپیش ہے-
اسرائیل ایک طے شدہ منصوبے کے تحت بیت المقدس کی تہذیبی شناخت کو تبدیل کرنے کیلئے کبھی انہدام کی پالیسی اور کبھی ترقیاتی منصوبوں کا سہارا لیکر بیت المقدس کے اسلامی، عربی اور تہذیبی و ثقافتی ورثے کو ختم کرنے کے لئے کارروائیاں کرتا رہتا ہے- مسجد اقصی کے انہدام کی سازشوں سے لیکر اسرائیل اس تاریخی شہر کے پورے لوک ورثے حتی کہ پرانی آبادیوں، قدیمی عمارات اور کوچہ بازار کوبھی تباہ کررہا ہے- مقصد محض یہ ہے کہ کسی طرح شہر کی اصل شناخت ختم کر کے اسے یہودی شناخت دی جاسکے-
اس مقصد کیلئے کبھی توسیعی منصوبوں کے نام پر، کبھی تفریحی پارکوں کے نام پر اور کبھی سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے نام پر بیت المقدس کی ثقافت پر اثر انداز ہونے کی تاک میں رہتا ہے-اپنی اس مذموم کوشش میں اسرائیل اس قدر واضح ہے کہ عرب ممالک کی طرف سے سال 2009ء کے دوران بیت المقدس کو عربوں کا ثقافتی مرکز قرار دیا تو اسرائیل نے اس سلسلے میں بیت المقدس میں کسی قسم کی ثقافتی سرگرمی کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا-
سال2009ء کی پہلی ششماہی گزرنے کو ہے لیکن ابھی تک اسرائیل نے اس امر کی اجازت نہیں دی کہ عرب، تہذیب و ثقافت کے حوالے سے بیت المقدس کے اندر خالصتاً ثقافتی تقریب منعقد کرا سکیں- دوسری جانب اسرائیل نے ثقافتی میلے کے نام سے خود سرگرمیاں شروع کر دیں تاکہ بیت المقدس کی ثقافت کا امین یہودیوں کو ثابت کیا جا سکے- القدس فاؤنڈیشن نے اس سازش کا نوٹس لیا اور عرب دنیا میں آگاہی شروع ہوئی- بعد ازاں عرب لیگ نے بھی اس معاملے کو نسبتاً سنجیدگی سے دیکھنا شروع کر دیا اور اسرائیلی ہٹ دھرمی کے باربار مظاہرے سامنے آنے پر فیصلہ کیا ہے کہ بیت المقدس کے تہذیبی ورثے کو اسرائیل اور ان کی فوج کے ہاتھوں خطرات لاحق ہیں اس سلسلے میں عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا جائیگا-
بلاشبہ یہ عرب لیگ کی طرف سے ایک مستحسن اقدام ہو گا- لیکن یہ کافی ہے نہ ہوگا ہے- عرب دنیا کو اس سلسلے میں اگر کامیابی حاصل کرنا ہے تو اس کیلئے عالمی عدالت انصاف سے رابطہ کافی نہیں ہے کیونکہ عالمی اداروں سے انصاف ملنا اگر اتنا ہی آسان ہوتا تو آج ساٹھ لاکھ کے قریب فلسطینی مہاجرت کی زندگی گزرانے پر مجبور نہ ہوتے اور فلسطین کے اصلی مالک آج فلسطینی عوام ہوتے نہ کہ دنیابھر سے رنگ برنگی ثقافتوں کے نمائندہ یہودی فلسطین پر قابض ہوتے-
صرف یہی نہیں جو مصر و شام اور ا ردن کے علاقے اسرائیلی قبضے میں گزشتہ بیالیس سال سے چلے آ رہے ہیں وہ بھی آزاد ہوتے- عالمی ادارے کس کے پنچۂ استبداد میں ہیں یہ ڈھکی چھپی بات نہیں- اس لیے عالمی عدالت انصاف سے رابطہ کے ساتھ ساتھ اپنے تن خاکی میں جاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے- ضروری ہے کہ یہ تاثر دور کیا جائے کہ عرب دنیا محض شہزادگی کے کلچر کی اسیر ہوئی ہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ عرب اپنے وہ اپنے آباء کی تہذیب و ثقافت کے ساتھ آج بھی گہری وابستگی رکھتی ہے- بلکہ ان میں ایسے رجل رشید بھی ہیں- جنہیں کبھی کسی چیلنج کا سامنا ہو تو وہ اس کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی طرف مائل ہوسکتے ہیں-
اسرائیل کو مسجد اقصی اور بیت المقدس کی تباہی سے روکنے کیلئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ عرب دنیا میں اسرائیلی دباؤ میں زندہ رہنے والے حکمرانوں اور حکومتوں کو مرعوبیت اور اسرائیلی قربت سے نکالنے کیلئے سوچ وبچار کی جائے اور انہیں اصل کی طرف لوٹنے پر آمادہ کیا جائے- اسرائیل صرف اسی وقت تک جارحیت (خواہ وہ ثقافتی و تہذیبی ہو یا سیاسی و جغرافیائی) کے ارتکاب کرنیکا حوصلہ کر سکتا ہے جب تک اسے عرب ممالک میں سے بعض کی قربت اور درپردہ حمایت حاصل رہے گی لہذا ضروری ہے کہ اپنی کالی بھیڑوں کا بھی تعاقب کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ عالمی برادری اور عالمی طاقتوں کے ضمیرکو جگانے کی کوشش کی جائے-
اگر دوسرے خطے، حکومت یا گروہ کو دوسروں کے تہذیب و مذہبی ورثے سے کھیلنے کی اجازت نہیں ہے تو اس کا حق بیت المقدس میں اسرائیل کو کیونکر دیا جا سکتا ہے؟- جبکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بیت المقدس اسرائیل کا حصہ نہیں ہے- گویا بیت المقدس کی تہذیبی شناخت بدلنے کی مذموم چالیں چل کر اسرائیل دوہرے جرم کا مرتکب ہو رہا ہے، جس کا اقوام متحدہ کو بھی نوٹس لینا چاہیے- عرب لیگ کو چاہیے کہ اس سلسلے میں عالمی اداروں سے مؤثر رابطے کے علاوہ اوآئی سی کو بھی ساتھ ملائے، جس کاوجود میں آنا ہی مسجد اقصی کونذر آتش کرنے کے ردعمل کے باعث ممکن ہوا تھا- بیت المقدس پوری مسلم دنیا کے لئے محبت و عقیدت کا مرکز بھی ہے اور تہذیبی تفاخر کا ذریعہ بھی-
لہذا ضروری ہے کہ عرب لیگ اور او آئی سی مسلمانوں کو درپیش دیگر چیلنجوں کے ساتھ ساتھ اس اہم مسئلے کیلئے بھی قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملاکر آگے بڑھیں اور اس معاملے کو محض وزرائے خارجہ کے اجلاس کے ایجنڈے میں ضابطے کی کارروائی کے طور پر نہ رکھا جائے بلکہ مسلم ممالک کے حکمران کم از کم اس بارے میں نسبتاً زیادہ حمیت کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کریں-