میتے اوبناتی نے کہاکہ یہودی آبادکاروں کے تشدد اور آمدورفت پر پابندی کے سبب مغربی کنارے کے جنوبی حصے میں معمولات زندگی شدید متاثر ہوچکے ہیں- میتے اوبناتی ستمبر 2007ء سے ریڈ کراس کے الخلیل میں سربراہ کے طور پر کام کررہے ہیں – میتے اوبناتی نے انٹرنیشنل ریڈکراس کی ویب سائٹ پر جاری کردہ اپنی پریس ریلیز میں کہاکہ ’’یہودی آبادکاروں نے فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی کو معطل کرکے رکھ دیا ہے، الخلیل کے پرانے شہر میں کالونیوں میں چھ سو آبادکار رہتے ہیں – جبکہ قریب قریب تیس ہزار فلسطینی آباد ہیں- یہاں قابض اسرائیلی انتظامیہ نے کئی رکاوٹیں اور کئی چوکیاں قائم کررکھی ہیں ، اس علاقے میں پادریوں کا غار ‘‘بھی موجود ہے کہ جو یہودیوں اور مسلمانوں کے لئے یکساں محترم ہے –
کئی سڑکیں بند کردی گئی ہیں اور فلسطینیوں کو یہاں اپنی کاریں لانے کی اجازت نہیں ہے- نقل وحرکت پر پابندی ، اور یہودی آبادکاروں کے حملوں کی وجہ سے فلسطینی نقل و حرکت پر شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں- بناتی کی تیار کردہ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ خوراک اور دیگر ضروریات زندگی حاصل کرنے کے لئے سینکڑوں فلسطینی خاندانوں کو چوکیوں سے گزرنا پڑتا ہے –
چوکیوں پر موجود اہل کاروں کی طرف سے فلسطینیوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، خواتین خصوصی طور پر اس ناروا سلوک کا حصہ بنتی ہیں کیونکہ فلسطینیوں کو اس علاقے میں گاڑی لانے کی اجازت نہیں دی جاتی اور عورتوں کو مجبورکیاجاتاہے کہ وہ پیدل چیک پوائنٹ سے گزریں ،بوڑھے لوگوں کو مجبور کیا جاتاہے کہ اپنے کاندھوں پر تھیلے لٹکا کر یہاں سے گزریں –
ایمبولینس گاڑیوں کو بھی یہاں سے گزرنے نہیں دیا جاتا اور کہا جاتاہے کہ مریضوں کو اسٹریچر پر ڈال کر چیک پوائنٹ سے گزریں – نقل وحرکت پر پابندی کی وجہ سے معمول کی زندگی شدید متاثر ہوچکی ہے – پرانے شہر میں اقتصادی سرگرمیاں کم وبیش ختم ہوکر رہ گئی ہیں –
فوج نے کئی دکانداروں سے کہاہے کہ وہ اپنی دکانیں بند کردیں – اس علاقے کے 86فی صد افراد غربت میں زندگی بسر کررہے ہیں جبکہ ان کی ماہانہ مدن 97ڈالر فی فرد سے بھی کم ہے – پرانے شہر کے رہنے والے اپنی کھڑکیوں پر جالیاں لگائے رکھتے ہیں تاکہ کھڑکیوں سے گندگی ان کے گھروں میں نہ پھینکی جاسکے – سکول جاتے ہوئے بچے بھی یہاں خوف کا شکار ہوتے ہیں –