جمعه 09/می/2025

اسرائیلی کال کوٹھڑیاں فلسطین کی جدوجہد آزادی کے رہنماؤں کے لئے مختص

پیر 22-جون-2009

کال کوٹھڑیاں دنیا بھر میں پیشہ ور، عادی اور خطرناک مجرموں کے لئے مخصوص سمجھی جاتی ہیں- لیکن اسرائیل میں صرف اور صرف فلسطین کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے لئے مختص کردی گئی ہیں- فلسطینی جدوجہد آزادی کے رہنما حسن سلامہ بھی ان 100اسیران میں سے ایک ہیں جو اسرائیلی عقوبت خانوں میں قید تنہائی اور کال کوٹھڑی کی سزا کاٹ رہے ہیں- وہ اس کوٹھڑی میں بھی آزادی کے گیت گاتے رہتے ہیں ، جہاں پر ہر طرف موت کا سایہ اور پاگل کردینے والی تنہائی ہے- اسرائیلی عدالت نے انہیں متعدد بار قید کی سزا سنائی ہے- ان پر بیسیوں یہودیوں کے قتل کا الزام ہے-

اسرائیلی جیلوں میں ایک سو سے زائد فلسطینی سیاسی اسیران قید تنہائی کاٹ رہے ہیں- فلسطینی اسیران کی قید تنہائی اکثر و اوقات سالوں پر محیط ہوتی ہے- اس دوران اسیر کسی بشر سے بات بھی نہیں کرپاتا- قانون کے مطابق قید تنہائی ایک سزا ہے جس کا وقت متعین ہوتاہے لیکن قابض اسرائیلی حکومت ذہنی دباؤ ڈالنے کے لئے اسیر کی قید تنہائی کا وقت متعین نہیں کرتی اور اس کی سزا میں بار بار توسیع کی جاتی ہے-

فلسطینی اسیران کو کال کوٹھڑیوں میں قید کرنے کی مدت عملاً اسرائیلی جیل حکام کا صوابدید ی اختیار ہے- کال کوٹھڑی کی سزا میں توسیع کرنے والی ایک واجبی سی عدالت ہے- جیل حکام سزا دینے کی وجوہات سے عدالت کو مطلع کرنا ضروری نہیں سمجھتے- جج سے کہا جاتاہے کہ سزا کی وجوہات صیغہ راز میں رکھی گئی ہیں- عدالت کچھ جانے اور قید ی کا موقف سنے بغیر سزا میں توسیع کردیتی ہے- ایسی کال کوٹھڑی جس میں دو اسیران کو رکھاگیاہے اگر وہاں سے کوئی خفیہ چیز برآمد ہو تو اس کی سزا میں ایک سال اور اگر ایسی کال کوٹھڑی سے کوئی چیز برآمد ہو جہاں پر ایک قیدی ہے تو اس کی سزا میں چھ ماہ کا اضافہ کیاجاتاہے- سزا کاٹنے کے بعد قید ی کو عدالت میں پیش کیاجاتاہے جو اسی جرم کی سزا میں ایک سال یا ڈیڑھ سال قید تنہائی میں مزید اضافہ کردیتی ہے-

فلسطینی وزارت برائے امور اسیران کے مطابق اسرائیلی انتظامیہ ان اسیران کو کال کوٹھڑیوں کی سزا دیتی ہے جن پر ایسی جہادی کارروائیوں کا الزام ہے جس میں یہودی ہلاک ہوئے ہوں یا کال کوٹھریوں میں ایسے قیدیوں کو رکھا جاتاہے جو فلسطین کی تحریک آزادی کے رہنما تصور کئے جاتے ہیں- تحریک آزادی کے اسیران کو کال کوٹھڑیوں میں رکھنے کا مقصد ان کے حوصلے پست کرناہے- ان کو نمی والی زمین پر لٹایا جاتاہے جس سے ان کا جسم متعد دبیماریوں کا شکار ہوجاتاہے- ایسی بیماریاں کہ انسان زندگی سے موت کو ہزار درجے بہتر تصور کرتاہے اور وہ ہر وقت اپنی موت کی تمنا کرتا رہتا ہے-

وزارت صحت کے میڈیا ایڈوائزر ریاض اشقر نے واضح کیا ہے کہ قید تنہائی دوطرح کی ہے کہ ایک قید تنہائی یہ ہے کہ صرف ایک ہی اسیر کو تنگ کوٹھڑی میں رکھا جاتاہے- اس کوٹھڑی کو ’’سنوک ‘‘ کہا جاتا ہے- جس کی چوڑائی ڈیڑھ میٹر اور لمبائی دو میٹر ہوتی ہے- اس کو ٹھڑی میں اسیر آسانی سے لیٹ بھی نہیں سکتا اور نہ ہی کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتاہے-

اسیر کو دوبوتلیں دی جاتی ہیں ایک میں پینے کے لیے پانی ہوتاہے جب کہ دوسری بوتل پیشاب کرنے کے لئے ہوتی ہے- اسیر کو 24گھنٹے میں صرف ایک دفعہ قضائے حاجت کے لئے کوٹھڑی سے باہر نکالا جاتاہے- اس کوٹھڑی میں انسان کو وقت کا کچھ معلوم نہیں ہوتا اسے نہیں معلوم کہ دن ہے یا رات ؟نماز کے اوقات اسیر معلوم نہیں ہوسکتے کیونکہ گھڑی، ریڈیو ، اخبار یا کوئی ایسی چیز رکھنے کی اجازت نہیں جس سے اس کو کوٹھڑی سے باہر کی دنیا کے بارے میں کچھ معلوم ہوسکے- اس جیل کی کینٹین سے کچھ خریدنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی- قید تنہائی کی دوسری قسم میں حالات پہلے سے قدرے بہتر ہوتے ہیں- دوسری قسم میں کمرہ ’’سنوک‘‘ کی بہ نسبت قدرے بڑے ہوتاہے اور اس کمرے میں ایک سے زائد اسیر کو رکھاجاسکتاہے- کمرے کے اندر واش روم ہوتا ہے-

ریاض اشقر کے مطابق مختلف اسرائیلی عقوبت خانوں میں 100سے زائد فلسطینی سیاسی اسیران قید تنہائی کا ٹ رہے ہیں- عسقلان ، رملہ ، ایالون ، نفحہ اور بئر السبع کی جیلوں میں کال کوٹھڑیاں ہیں- اس لئے وہاں پر اسیران کو ہمیشہ قید تنہائی کی سزا دی جاتی ہے-

ریاض اشقر نے فلسطینی سیاسی اسیران کو درپیش مشکلات کاذکر کرتے ہوئے کہاکہ خطرناک امر یہ ہے کہ ان کوایسی کال کوٹھڑیوں میں رکھاجاتاہے جو پیشہ ور اور خطرناک مجرموں کے لیے مخصوص سمجھی جاتی ہیں- صہیونی جیل اہل کاروں کا سیاسی اسیران کے ساتھ بدکلامی اور گالم گلوچ کرنا معمول کی بات ہے- اسیران کے جسموں پر جلانے والا مواد اور سیال اشیاء چھڑکی جاتی ہیں- ان کے دینی جذبات کو مجروح کرنے کے لئے اونچی آواز میں موسیقی کے نام پر گانے بجائے جاتے ہیں- سیاسی اسیران کو 24گھنٹوں میں صرف ایک گھنٹہ چہل قدمی کی اجازت دی جاتی ہے اور اس گھنٹے کاتعین جیل اہل کار کی صوابدید پر منحصر ہے- صہیونی اہلکار سخت سردیوں کو موسم میں صبح چھ بجے کے وقت اسیران کو چہل قدمی کے لیے کوٹھڑیوں سے نکالتے ہیں- اگر ایک کوٹھڑی میں دو اسیر ہیں توان میں سے ایک اگر چہل قدمی کے لئے نہ نکلنا چاہے تو دوسرے کو بھی اس حق سے محروم کردیا جاتا ہے-

اسی طرح مختلف حیلوں بہانوں سے اسیران سے چہل قدمی کرنے کی سہولت بھی چھین لی جاتی ہے- ہتھکڑیاں کال کوٹھڑیوں میں قید اسیران کی زندگی کا حصہ ہیں- وہ جہاں بھی جائیں گے ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی ہوں گی حتی کہ کوٹھڑیوں سے باہر غلاظت نکالتے وقت بھی ان کے ہاتھ ہتھکڑی میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں-

وکیل یا اہل خانہ سے ملاقات اور عدالت جاتے ہوئے بھی حتی کہ ڈاکٹر سے چیک اپ کرواتے وقت بھی ان کے ہاتھوں میں آہنی زنجیر یں ہوتی ہیں- اسیران کے چیک اپ کے لئے انہیں بستر پر لٹاتے وقت ان کے ہاتھ کمرکے پیچھے باندھ دیئے جاتے ہیں- ظلم کی انتہا یہ ہے کہ میڈیکل ٹیسٹ کرانے کا اگر کبھی مرحلہ آجائے تو ان کے یورین اور بلڈکے ٹیسٹ بھی انتہائی توہین آمیز انداز میں لئے جاتے ہیں اور اس دوران کبھی ان کی ہتھکڑیاں کھولی نہیں جاتیں-

اگر کوئی اسیر اونچی آواز میں قرآن پڑھے ، کسی اسیر سے بات کرلے یا غیر ارادی طور پر اس سے کوئی چیز ٹوٹ جائے تو اسے ’’چہل قدمی ‘‘کرنے اور کینٹین سے کسی قسم کی چیز خریدنے کی سہولت سے محروم کردیا جاتاہے- اہل خانہ کی ملاقاتیں تو بالکل منع ہیں کبھی کبھار ملاقات کی اجازت دی جاتی ہے-

اگر کوئی اسیر بیمار ہوجائے تو اسے علاج کی سہولت حاصل کرنے کے لئے متعدد پیچیدہ مراحل سے گزرنا پڑتاہے- علاج کے لئے ہفتے میں صرف پیر کا دن مخصوص ہے- اسیران صرف پیر کے دن ڈسپنسری جاسکتے ہیں- جس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی اسیر منگل کے روز بیمار ہوجاتاہے تو اسے پیر کے دن تک انتظا ر کرنا پڑتاہے- اگر پیرکے روز افسر کسی کام میں مشغول ہو تو وہ موقع بھی بیمار اسیر کے ہاتھ سے نکل جاتاہے اور اسے مزید ایک ہفتہ کا انتظار کرنا پڑتاہے- ڈسپنسری جاتے ہوئے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی ہوتی ہیں- چیک اپ کے دوران صہیونی ڈاکٹر اسیر سے ذلت آمیز رویہ اپناتے ہیں- اگرمریض کا خون ٹیسٹ کرنے، ایکسرے وغیرہ کی ضرورت ہو تو اس کے لئے اسے مہینوں انتظار کرنا پڑتاہے- اسیران کی صحت مسلسل بگڑنے کی وجہ کال کوٹھڑیوں میں صفائی کا انتظام نہ ہونا اور کال کوٹھڑیوں سے ہوا کاگزرنہ ہونا ہے- کال کوٹھڑیوں میں چوہے آزادی سے آتے جاتے ہیں جبکہ گندگی کی وجہ سے کوٹھڑیاں مچھروں اور کاکروچوں سے بھری ہوئی ہیں- کال کوٹھڑیوں میں بند اسیران کے لئے چہل قدمی کرنے کی جگہ 4×5میٹر کا ایک کمرہ ہے جس میں سورج کی شعاعیں بھی داخل نہیں ہوتی ہیں جبکہ یہ کمرہ اکثراوقات کریمینل قیدیوں کی طرف سے پھینکی چیزوں اور گندگی سے بھرا ہوتاہے-

فلسطینی سیاسی اسیران دینی حقوق سے بھی محروم ہیں ، کال کوٹھڑیوں کے اسیران کو نماز جمعہ یا نماز عید پڑھنے کی سہولت میسر ہونا تو درکنار انہیں پانچ وقت کی نماز کی ادائیگی کے لئے جائے نماز فراہم نہیں کیا جاتا-

رپورٹ کے مطابق کال کوٹھڑی کی سزاکے اسیر پر نفسیاتی اثرات بہت خطرناک ہوتے ہیں- جب کوئی شخص اکیلا ہو سالہاسال اس نے جیل اہلکاروں کے سوا کسی کی شکل نہ دیکھی ہو اور اس پر ذہنی و جسمانی تشدد کے تمام حربے استعمال کئے جاتے رہے ہوں تو اس میں احتجاجی رویہ خود بخود پروان چڑھ جاتاہے- جب کوئی اسیر احتجاجی رویہ اپناتاہے تو اس پر خودکشی کا الزام لگا کر اسے لوہے کے بیڈ پر زنجیروں سے باندھ دیا جاتا ہے اور صبح و شام دودفعہ صرف آدھ آدھ گھنٹے کے لئے کھانے پینے اور انسانی حاجت پوری کرنے کی خاطر کھولا جاتا ہے-

انسانی حقوق کی تنظیموں نے واضح کیا ہے کہ قید تنہائی کے انسان پر واضح طور پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں حتی کہ قید تنہائی اسے پاگل بنادیتی ہے کیونکہ انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ معاشرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا- اسے دوسرے سے بات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اگر جبری طور پر اسے فطری چیز سے منع کردیا جائے تو وہ ذہنی مریض بن جاتا ہے-

غزہ سے تعلق رکھنے والے فلسطینی اسیرعویضہ کلاب 20سال سے اسرائیلی عقوبت خانوں میں قید و بند صعوبتیں برداشت کررہے ہیں- انہوں نے 12سال قید تنہائی میں کاٹے- اب ان کی ذہنی حالت یہ ہے کہ وہ جیل میں اپنے ساتھیوں کو نہیں پہنچانتے اور اہل خانہ سے ملاقات سے انکار کرتے ہیں- حتی کہ وہ اپنے اس اکیلے بیٹے کو نہیں پہچانتے جو اب جوان ہوچکاہے- جب عویضہ کلاب کو گرفتار کیاگیا تھا تو ان کا بیٹا ابھی بچہ تھا-
فلسطینی سیاسی اسیر عفیف عواد قید تنہائی کے باعث ذہنی مریض ہوگئے ہیں حتی کہ صہیونی جیل اہلکاروں نے ان کی ذہنی حالت سے فائدہ اٹھایا اور انہیں اپنے ساتھی پر دست درازی کرنے کے لئے استعمال کیا- ایک اور اسیر درویش دوحل بھی قید تنہائی کے باعث ذہنی مریض بن گئے ہیں-

وہ کسی سے بات نہیں کرتے اور نہ ہی چہل قدمی کے لیے کوٹھڑی سے باہرآتے ہیں- بہت سے فلسطینی سیاسی اسیران قید تنہائی کے باعث نفسیاتی مرضوں میں مبتلا ہوچکے ہیں- قابض اسرائیلی حکومت فلسطینی سیاسی اسیران کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہی ہے- فلسطینی وزارت برائے امور اسیران نے مطالبہ کیاہے کہ یرغمال اسرائیلی فوجی گیلادشالیت کی رہائی کے مطالبے سے پہلے اسرائیل عالمی قوانین کے مطابق فلسطینی سیاسی اسیران کوان کے حقوق دے-

مختصر لنک:

کاپی