فلسطین میں وحشیوں نے وسیع پیمانے پر قتل عام کیا اورارض فلسطین میں ظلم و زیادتی اور اجتماعی قتل و غارت کی وہ داستانیں رقم ہوئیں کہ جو چند سال پہلے یورپ میں وقوع پذیر ہوئی تھیں- مجرم غاصبوں نے اسرائیل کو جنم دیا جو ایک نسل پرست ریاست ہے جس کی بنیاد نسلی تطہیر، اراضی پر قبضے، لوگوں کو نکال باہر کرنے اور دروغ گوئی پر ہے-
فلسطین کی سرزمین پر بدی کی ریاست اسرائیل کا قیام عصمت دری کا واقعہ ہے- یہ ہمیشہ عصمت دری کا واقعہ ہی رہے گا چاہے کتنے ہی لوگ صہیونی ریاست کی تعریف میں رطب اللسان رہیں اور اسرائیل کی ہم نوائی کرتے رہیں- کیا اکسٹھ برس گزرنے کے بعد چوری کا واقعہ قانونی کارروائی بن جاتا ہے؟ کیا پانچ سو برس بعدیہی کام ’’ قانون‘‘ بن سکتا ہے؟
وسائل کے لحاظ سے اسرائیل ایک مستحکم ریاست ہے- سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کافی آگے ہے اور اس کی اعلی ترین جنگی مشینری ہے جس کے ذریعے یہ فلسطینیوں کو تشدد کا نشانہ بناتی ہے اور ہمسایوں کو دھمکاتی ہے چاہے قریب کے ہمسائے ہوں یا دور کے –بدی پر مبنی اسرائیلی ریاست کے امریکی سیاسی پالیسیوں پر غیر معمولی اثرات مرتب ہوتے ہیں یہاں تک کہ کانگرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ’’اسرائیلی مقبوضہ علاقہ‘‘ ہے-
حقیقت میں عالمگیر صہیونی تحریک مغربی ذرائع ابلاغ پر غیر معمولی اثرات رکھتی ہے- اور اس کے ذریعے یہ مغربی سیاستدانوں کو خوفزدہ کرتی ہے جو جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کی غلط یا صحیح حمایت پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں- کہیں ایسا نہ ہو کہ ان پر ’’یہود دشمنی‘‘ کا الزام عائد ہو جائے-
یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری جس پر مغربی بلاک کا کنٹرول ہے- اسرائیل کو مشرق وسطی میں نازی طرز کے اقدامات سے روک نہیں ہے نہ ہی غزہ اور لبنان پر جنگی جارحیت سے روکاجا سکا ہے- یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ دیکھتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف ہر قسم کے اقدامات کررہا ہے اور وہ اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے چاہے اسرائیل لبنان اور غزہ پر خوفناک جنگ مسلط کردے- اگر امریکیوں اور اہل یورپ نے صہیونیوں کے ظلم و ستم سے آنکھیں بند نہ رکھی ہوتیں تو فلسطینیوں کا مسئلہ کب کا حل ہوچکا ہوتا –
اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے کہ جو کبھی بھی اپنے وجود کے لیے قانونی جواز پیش نہیں کرسکی اس کے وجود کی صرف ایک دلیل ہے اور وہ دلیل ہے فوجی بالادستی اور نہتے شہریوں پر ظلم و ستم ہم اس وقت تک یہودی ریاست کے وجود سے انکار کرتے رہیں گے جب تک یہودی ریاست ان لوگوں کو واپسی کا حق دینے سے انکار کرتی رہے گی کہ جو اکسٹھ برس قبل یہاں سے نکل چکے تھے- واپسی کا حق فلسطینیوں کا اہم ترین حق ہے- اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں- ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ مسئلہ فلسطین 1967ء میں مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور مشرقی بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے سے شروع نہیں ہوا تھا-
مسئلہ فلسطین ’’مقبوضہ علاقوں‘‘ کے بارے میں نہیں ہے یہ ان پچاس لاکھ لوگوں کے بارے میں ہے کہ جنہیں ان کے آبا و اجداد کے وطن سے طاقت کے زور پر نکال باہر کیا گیا تھا- ان لوگوں کی اپنے گھر واپسی کسی بھی دوسرے حق سے زیادہ ضروری ہے- واپسی کا حق اتنا پیچیدہ نہیں ہے کہ اس پر عمل درآمد مشکل ہو جائے- فلسطین کی سرزمین پر ابھی لاکھوں لوگوں کو بسایا جاسکتا ہے- اگر اقوام عالم فلسطینیوں کو انصاف فراہم کرنے میں یقین رکھتی ہیں تو انہیں چاہیے کہ ساؤتھ افریقہ میں حکومت کی نسل پرستی کی طرح اسرائیلی حکومت کی نسل پرستی کی بھی مذمت کریں-
اس کی کیا دلیل ہے کہ بھارت کے چند لوگ یہودی مذہب اختیار کرلیں تو انہیں فلسطین میں آنے کا حق مل جائے اور جو لوگ یہاں نسل در نسل رہے انہیں یہ حق نہ ملے- یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ اردن کے حکمران عبد اللہ نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل عرب امن مہم تسلیم کرلے تو 57 اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے- مجھے معلوم نہیں ہے کہ ان 57 ممالک میں سے کون سے ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا حق اردن کے حکمران عبد اللہ کو دیا ہے کیونکہ کئی مسلم ممالک میں حکمران ایسے ہیں کہ جو ووٹوں کے بغیر اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں اور ان کی حیثیت آمر حکمرانوں کی ہے- تاہم مجھے یقین ہے کہ ان ممالک کے عوام فلسطین کی حمایت کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے فلسطینی اپنے وطن میں واپس آئیں-
مجھے یہ بھی یقین ہے کہ کسی بھی فلسطینی حکومت یا جماعت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق یا ارض فلسطین فروخت کردے- یہ حق حماس اور فتح کو بھی حاصل نہیں ہے- اگرچہ آج مشکل نظر آتا ہے کہ یہودی یہ علاقہ کیسے چھوڑیں گے اور دنیا بھر کے لوگ واپس کیسے آئیں گے تاہم یہ واقعہ سورج، چاند، ستارے والی اس کائنات میں رونما ضرورہوگا-