مصر میں ہونے والی تقریب کے بعد سے ماہرین ذرائع ابلاغ اور تجزیہ نگاروں نے صدر اوباما کی تعریف میں داد کے ڈونگرے بسانا شروع کردیے ہیں- بہت کم لوگ ایسے ہیں کہ جن کی نگاہ اس معاملے پر گئی کہ عرب اور مسلمان اس قدر دل پھینک نہیں ہیں کہ پرزور تقاریر پر ہی دل ہار بیٹھیں- وہ عالمی سطح پر ایک کردار ادا کررہے ہیں- ان کے اندر مزاحمت اور تبدیلی کی صلاحیت موجود ہے-
ابتداء ہی میں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ عربوں اور مسلمانوں کو ایک ہی سیاسی رو میں نہ رکھا جائے- جغرافیے، زبان، معیشت اور سیاست کے فرق کے علاوہ کئی دیگر اختلافات سے واقفیت ضروری ہے- اس کی کیا وجہ ہے کہ عربوں اور مسلمانوں کو واحد سیاسی وحدت کے طور پر مخاطب کیا گیا اور نام نہاد لفظ ’’مسلم دنیا‘‘ استعمال کیا گیا جبکہ مسلم دنیا کے درمیان جو معرکے جاری ہیں ان کی موجودگی میں یکساں ردعمل کا امکان ہی موجود نہیں ہے-
یہ ایک حقیقت ہے کہ عربوں اور مسلمانوں میں کئی ایک گروپ ہیں کہ جن کی تاریخ ایک ہے، زبان ایک ہے، عقائد ایک ہیں لیکن اس کے باوجود یہ گروپ تاریخ کی تعبیر، عقائد کی تشریح اور ثقافتی حوالوں کی جدا جدا تعریف رکھتے ہیں-
ان سب کو ایک ہی لفظ میں کیوں محدود کردیا گیا ہے کیا یہ درست ہے کہ شمالی افریقہ کا ایک فرد جو فرانس کی کچی آبادی میں زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہا ہے- زندگی کے بارے میں وہی اقدار، توقعات اور نقطۂ نظر رکھے گا جو خلیجی ممالک میں سپورٹ یوٹیلٹی وھیکل (SUV) چلانے والا نوجوان رکھتا ہے-
کیا ایک غریب مصری جو بذات خود ایک ایسے کمزور سیاسی نظام میں اپنے لیے جگہ بنارہا ہے کہ جو جہاں ایوان اقتدار منتخب یہودیوں کے لیے خاص نرم گوشہ رکھتا ہے- کیا وہ دنیا کو اسی طرح دیکھے گا جس طرح ملیشیا کا مسلمان دیکھتا ہے کہ جس کے پاس سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی سہولیات موجود ہیں- ایک ہی ملک میں، ایک ہی قوم میں، ایک ہی مذہب کے پیروکاروں میں ایک معاملے کی مختلف تعبیر ہوسکتی ہے- اوباما نے مصر میں جو الفاظ کہے ہیں کیا وہ دنیا کے ہر مسلمان مرد یا عورت کے جذبات اور امنگوں کا عکاس ہیں- مزاحمت کرنے والوں اور مزاحمت کی پشت میں چھرا گھونپنے والوں کے لیے کیا ایک ہی جملہ چنا جاسکتا ہے- کیا جن کے پاس سب کچھ ہے اور جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، برابر ہوسکتے ہیں؟-
براک اوباما کے دورے کو کامیاب ثابت کرنے کے لیے رائے عامہ کے سروے اور تجزیہ نگاروں کی بھر مار ہو چکی ہے- چھ ممالک میں شبلی تلہمی اور Zogby International کے سروے میں بتایا گیا کہ براک اوباما کا دورہ اس قدر کامیاب ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی اور اوباما امریکی دنیا میں بے انتہا مقبول ہو چکے ہیں لیکن اس سب کچھ کے باوجود عرب ابھی تک امریکہ کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں- عرب اسرائیل یہ جان لینا چاہیے کہ تنازعے کے بعد عراق کا مسئلہ سرفہرست ہے-
اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کئی ممالک میں رہنے والے عربوں میں مشترکہ تصورات اور امکانات پائے جاتے ہیں، لیکن یہ کون بتائے گا کہ مصر اور میکسیکو کے غریبوں میں نیز مصر اور پاکستان کے طبقۂ اشرافیہ میں یکساں رائے نہیں پائی جا سکتی-
اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ عربوں اور مسلمانوں کو اجتماعی طور پر خوفزدہ کیا جاتا ہے، ان کو بعض اوقات اکٹھا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اجتماعی طور پر ان کی کردار کشی کی جاتی ہے- دیگر الفاظ میں عربوں اور مسلمانوں کے بارے میں امریکی خارجہ پالیسی سے یہ ظاہر ہے کہ تمام مسلمانوں اور تمام عربوں کو ایک ہی درجے میں رکھا جائے- مسلمانوں کو ایک وحدت کے طور پر اس وقت لیا جاتا ہے کہ جب ’’جمہوریت‘‘ کی مہم کے لیے مسلمانوں کو ایک وحدت قرار دینے کی ضرورت پیش آئے- مسلمانوں کو اس وقت بھی ایک وحدت قرار دیا جاسکتا ہے کہ جب ان پر دہشت گردی کا لیبل لگانا ہو یا غلط مذہب کے پیروکار ہونے کے ناتے ان کے سر پر الزامات کی بھر مار کرنا ہو-
ڈیوڈ شینکر نے واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ برائے مشرق قریب پالیسی کی ویب سائٹ کے لیے تحریر کردہ اپنے مضمون میں کہا ہے کہ قاہرہ میں اوباما کی تقریر کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے- انہوں نے کہا کہ ایران کا مسئلہ ہی ایسا مسئلہ ہے کہ جو مسلمانوں اور براک اوباما کے درمیان مشترک ہے-
براک اوباما نے ایران کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے ’’تہران کی جانب سے جوہری اسلحہ کی تیاری اور مقاومہ، مزاحمت کے نظری و عملی معاونت کی فراہمی واشنگٹن اور اس کے عرب دوستوں کے لیے تشویش کا باعث ہے-‘‘
مذکورہ بالا سروے کے مطابق بہت کم عرب ایسے تھے کہ جنہوں نے ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا- اس کا مطلب یہ ہے کہ عربوں کے لیے اصل مسئلہ فلسطین کا مسئلہ ہے- مزاحمت کا حق کسی بھی مجبور و محکوم قوم کا بنیادی حق ہے- اسے ’’قابل تشویش‘‘ بنادیاگیا ہے- اس طرز عمل کی وجہ سے امریکی خارجہ پالیسی متاثر چلی آرہی ہے-
اگر اوباما چاہتے ہیں کہ عربوں اور مسلمانوں کو ’’ایک وجود‘‘ کے طور پر لیں اور جعلی وعدے کرتے رہیں تو وہ مایوس ہوں گے- امت مسلمہ ایک غیر مؤثر گروپ کے طور پر حقیر طرز عمل قبول نہ کرے گی- اوباما کچھ کرنا چاہتے ہیں تو فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادیں منظور کرائیں-