اوباما کی تقریر کے حوالے سے اندازے لگائے جارہے ہیں اس سے خیر سگالی کے جذبات اور لوگوں پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور ان کو سمجھنا ضروری ہے مجھے یقین ہے کہ مسلمان بھی خیر سگالی کا جواب خیر آئند الفاظ سے ہی دیں گے-
نبی علیہ السلام نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ تمام انسانوں سے مہربانی سے پیش آئیں چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ہو، آپ کا فرمان ہے کہ لوگوں کے دل دولت سے نہیں خریدے جاسکتے، تاہم اچھے اخلاق اور اعمال سے لوگوں کو جیتا جاسکتا ہے- مغرب کی جانب سے اب تک جو علامتی پیغامات اور اشارات مسلم دنیا کو موصول ہوئے ہیں وہ کافی نہیں ہیں کیونکہ ان علامتی پیغامات کے ساتھ ساتھ انتہائی تلخ واقعات کی یاد بھی منسلک ہے-
دو سو سال پہلے نپولین نے مصر پر حملہ کیا تھا اس نے کوشش کی کہ وہ مصر کے لوگوں میں مقبول ہو جائے، اس نے دعوی کرنا شروع کردیا کہ میں ایک عظیم نجات دہندہ ہوں اور میں نے مصریوں کو مملوکوں کے ظلم و ستم سے نجات دلائی ہے- علاوہ ازیں اس نے اسلام کی تعلیمات کی خوبیاں بھی بیان کرنا شروع کردیں- لیکن اس کے تلخ آمرانہ کردار نے اس کے الفاظ کو دھند لاکر رکھ دیا- ’’عظیم نجات دہندہ‘‘ دروغ گو اور بہت بڑا مجرم ثابت ہوا-
برطانیہ نے بھی یہی رویہ اختیار کیا اس نے عرب مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہوئے ان کی پشت میں چھرا گھونپنے کا سلسلہ شروع کردیا- 1917ء کا معاہدہ فالفور جس کے نتیجے میں فلسطین کی سرزمین پر 1948ء میں اسرائیل قائم کیا گیا، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی سب سے بڑی سازش اور سب سے بڑا جرم ہے- رستا ہوا بدبودار زخم (اسرائیل) مغرب اور مسلمانوں کے باہمی تعلق کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے- اس لیے ضروری ہے کہ بھرپوراجتماعی اورغیر معمولی اقدامات کے ذریعے انصاف اور دیانتداری کے اصول پر مبنی مسئلہ فلسطین کے حل کی کوشش کی جائے-
اھلاً و سھلاً،میں بالکل شروع میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کی اکثریت بلکہ میں تو کہوں گا کہ 99.99 فیصد مسلمان امریکہ کے ساتھ دوستانہ اور پائیدار تعلقات چاہتے ہیں، ایسے تعلقات جن کی بنیاد برابری، احترام باہم، ایمانداری اور رواداری پر ہو-
مسلمان پیدائشی اور وراثتی طور پر امریکہ کے خلاف نہیں ہیں- مسلمانوں پر یہ الزام جانتے بوجھتے عائد کیا جاتا ہے کہ وہ امریکہ مخالف ہیں جبکہ یہ بات درست نہیں ہے-
حقیقت یہ ہے کہ سینکڑوں نہیں ہزاروں طالب علموں نے امریکہ کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے- میں نے بذات خودنورمن کی یونیورسٹی آف اوکالاھاما سے 1981ء میں گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی تھی اور 1983ء میں یونیورسٹی آف سدرن الی نائے کاربن ڈیل سے جرنلزم میں ایم اے کی بھی ڈگری حاصل کی تھی-میں امریکہ کا شکر گزار ہوں- امریکی قوم کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے یہ موقع فراہم کیا-
اس کے علاوہ یہ نکتہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ مسلمانوں کو امریکی آزادی اور آزاد شہری حقوق سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے- یہ دعوی کہ مسلمان امریکی آزادی سے ڈرتے ہیں ڈینئیل پائپس اور رابرٹسن نے یہ الزام اس لیے گھڑا ہے کیونکہ اسلام اور مغرب کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات سے ان کے مفادات وابستہ ہیں میں ایمانداری سے یقین رکھتا ہوں کہ امریکہ کی جانب سے ’’عرب اتحادیوں‘‘ کو کچلنے یا صرف دبانے کی کوشش بھی ناکام ہو چکی ہے امریکہ عالم عرب کے لیے انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی بات کرتا ہے لیکن اس کی بجائے عالم عرب اورمسلم دنیا میں اس کے منفی اثرات مسلسل مرتب ہو رہے ہیں-
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صدر اوباما کو اھلاً و سھلاً یا ’خوش آمدید کہیں- ہم انہیں اس سرزمین پر خوش آمدید کہتے ہیں اور ہم اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اب تک انہوں نے جو دعوے کیے ہیں ان پر عملدرآمد بھی کریں گے اور اولین ضرورت ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ صاف دلی کے ساتھ معاملہ کریں دوغلی پالیسی اختیار نہ کریں- صاف دلی کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ مسلم دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو از سر نو استوار کرے- صاف دلی اور ایمانداری اس لیے ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی معاملہ ٹھوس بنیادوں پر استوار نہیں ہوسکتا- نیز صاف دلی کا راستہ اور ایمانداری کا راستہ ترک کردیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دوغلا پن اور بے ایمانی پروان چڑھتی رہے جس سے تلخی، تنائو، تنازعہ اور جنگ جنم لیتے ہیں-
صدر اوباما سازشی فردنہیں ہے وہ سیاہ جارج بش نہیں ہے، وہ تمام معاملات کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں- انہیں جاننا چاہیے کہ سب سے اہم فلسطینیوں کے استحصال کا مسئلہ ہے جو اسلام اور مغربی دنیا کے درمیان سب سے بڑا اختلافی مسئلہ ہے-
کئی سالوں سے برسراقتدار آنے والی امریکی حکومتوں نے اسرائیل کو خوفناک حد تک طاقتور ملک بنادیا ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ انسانوں کو قتل کرتا ہے، زمین پر قبضے کرتا ہے اور دھڑلے سے جھوٹے بیانات داغتا ہے- امریکہ برس ہا برس سے لاتعلقی اور غفلت کے ساتھ دیکھ رہا ہے کہ اسرائیل فلسطینی عوام کی عصمت دری کرتا ہے- انہیں قتل کرتا ہے فلسطینی عورتوں، مردوں اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بناتا ہے، ان کی فصلوں پر بلڈوزر چلا تا ہے اور ان کے تمام حقوق سلب کرلیتا ہے-
فلسطینی دیہات، قصبے اور شہری عملی طور( Concentration Camp) میں تبدیل ہو چکے ہیں جہاں مایوسی اور تلخی کا دور دورہ ہے- اسرائیل نے دو راستے کھلے چھوڑے ہیں یا تو یہودیوں کے مذبح خانوں میں خاموش روی کے ساتھ محدود رفتار موت قبول کرلیں جیسا کہ 1967ء سے ہوتا چلا آرہا ہے یا پھر یہ کہ اسرائیل کی سڑکوں بازاروں میں خودکش بم باندھ کر اپنے آپ کو اڑالیں اور موت کے حوالے کردیں- اسرائیل نے اس کے علاوہ کوئی اور باوقار راستہ چھوڑا نہیں ہے- ایسا راستہ جس کے ذریعے ہمیں آزادی، خودمختاری اور آزاد روی کے ساتھ دیگر انسانوں کے ساتھ مل کر رہنے کا موقع مل جائے-
اور جب ہم ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انصاف کے حصول کے لیے گئے تو امریکہ نے اپنا ویٹو کا حق استعمال کرلیا اور اسرائیل کے خلاف جتنی بھی قراردادیں منظور ہوئی تھیں، امریکہ نے انہیں مسترد کردیا-
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ امریکہ کی بے حد و حساب امداد نے اسرائیل کو موقع فراہم کردیا کہ وہ مزید انسانوں کو قتل کرے، مزید اراضی پر قبضہ جمائے اور مزید دروغ گوئی سے دنیا کو گمراہ کرے-
امریکہ میں کہتے ہیں ’’آزادی دو یا مجھے موت دو‘‘ تاہم اسرائیل میں فلسطینیوں کو بتایا جاتا ہے کہ ہم یہودی بن جائیں اور اللہ تعالی کی رحمت کے دامن میں آجائیں ورنہ اس کے لیے تیار ہو جائیں کہ غلام بن کر آقا قوم کے لیے ’’سقوں اور لکڑ ھاروں‘‘ کا کردار اختیار کرلیں ورنہ ہمارے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا کہ جو ماضی کے کنعانی قبیلوں کے ساتھ ماضی کے اسرائیلیوں نے کیا تھا یعنی یہ کہ پوری قوم کو ہلاک کردیا تھا-
جناب صدر: ہماری سرزمین پر اسرائیل کا قبضہ، ہماری مادر وطن کی عصمت دری ہے- اسرائیل ہماری عزت کی دھجیاں بکھیر رہا ہے- ہمارے وجود کو چٹکیوں میں مسل رہا ہے- یہ ایک دفعہ کی کہانی نہیں ہے- یہ واقعہ ہر دن ہر گھنٹے اور ہر لمحے رو پذیر ہوتا ہے-
آپ نے حال ہی میں غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی اسرائیلی جنگ دیکھ لی ہے، یہ ساحلی شہر اس وجہ سے ناکہ بندی اور جنگ کی دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے کیونکہ اسرائیل کو 2006ء کے انتخابی نتائج پسند نہیں تھے – اسرائیل نے سینکڑوں کے حساب سے ہمارے بچوں کو قتل کرڈالا، ہمارے گھروں کو مسمار اورملیا میٹ کردیا- ہمارے محلوں پر سفید فاسفورس بم برسائے- یہ قدم نازی جاریت سے کسی طور کم نہیں- ایمانداری کا تقاضہ ہے کہ صاف گوئی پر یقین رکھنے والے امریکی اسرائیل کے اس اقدام کی مذمت کرتے جو نہیں کی گئی- یہ فلسطینی پراپیگنڈا نہیں ہے- اس نے نسل پرستی اور نسل کشتی کی جو پالیسی اختیار کررکھی ہے- اس کی کہانی طویل ہے- یہ اس قدر طویل ہے کہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کہانی کا آغاز کہاں سے کیاجائے اور اس کا اختتام کہاں پر کیا جائے-
مسلمان چاہتے ہیں کہ اسرائیل نے فلسطینی سرزمین کو زیادہ سے زیادہ زیر تسلط لانے کا جو سلسلہ شروع کررکھا ہے اس کا خاتمہ ہو-اس کے بعد اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ آمرانہ عرب بادشاہتوں کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھالے کہ جو عالم عرب کو بنیادی انسانی حقوق تک دینے کے لیے تیار نہیں ہیں-
جناب صدر: کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں عوام الناس کو موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے لیڈر منتخب کریں- امریکہ کی مثال ایک ایسے روشن شہر کی ہے کہ جو پہاڑی پر واقع ہے اور اس روشن شہر نے عالم عرب کے بارے میں جو ایک پالیسیاں اختیار کررکھی ہیں ان کا سمجھنا تک محال ہے- امریکیوں اور مسلمانوں کے درمیان پائیدار تعلقات دوغلے پن اور منافقانہ طرز عمل سے استوار نہیں کیے جاسکتے- انفرادی زندگی میں بھی اور اجتماعی طور پربھی منافقت پر کوئی تعلق استوار نہیں ہوسکتا-
حماس آپ تک یہ پیغام پہنچانا چاہتی ہے کہ صدر صاحب محترم آپ عرب آمروں کی سرپرستی بند کردیں- ان کے جھوٹے اعلانات کو قبول نہ کریں- اپنے ممالک میں جمہوریت نہ قائم کرنے کے بارے میں جو لولے لنگڑے دلائل وہ پیش کرتے ہیں انہیں قبول نہ کریں- اگر ایسا نہ کیا گیا تو دلوں اور دماغوں کی جنگ ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمانوں سے ہار جائے گا اور اس ہار کی ذمہ داری امریکہ پر ہوگی-
جناب صدر! اللہ آپ کا نگہبان
اس مضمون کو انگلش سے اردو قالب میں محمد ایوب منیر صاحب نے ڈھالا