جمعه 09/می/2025

یہودی ریاست سے وفاداری کا قانون فلسطین سے شہریوں کو بے گھر کرنا ہے

ہفتہ 30-مئی-2009

بنیامین نیتن یاھوکی قیادت میں وجود میں آنے والی اسرائیل کی موجودہ انتہا پسند حکومت نے محض 1948ء کے دوران قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقوں میں مقیم فلسطینوں کو نکال باہر کرنے، فلسطینی اتھارٹی سےاسرائیل کو”یہودی ریاست” تسلیم کرانے کا مطالبہ کرنے اورامن عمل آگے بڑھانے کے سلسلے میں اسے بنیادی شرط قرار دینے پرہی اکتفا نہیں کیا بلکہ نسل پرستی کے مظہرایک قانون کی منظوری بھی  اسی حکومت کا اقدام ہے جس کے تحت مقبوضہ علاقوں میں گذشتہ ساٹھ برسوں سے آباد شہریوں کو ان کی ملکیت سے محروم کرنا ہے۔

اٹھائیس مئی کو اسرائیلی کنیسٹ( پارلیمنٹ) نے ابتدائی بحث میں ایک  مسودہ قانون کی منظوری دی جس کے تحت اسرائیل کو نسل پرست ریاست تسلیم نہ کرنے والے کسی بھی فلسطینی شہری کو ایک سال تک جیل میں رکھاجاسکے گا۔ اس طرح اسرائیلی حکام ہراس فلسطینی شہری اور خاندان کو انتقام کا نشانہ بنا سکیں گےجو ریاست کا باشندہ ہونے اور تمام ترجوازہونے کے باوجود اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم کرنے سے انکار کرے گا۔ یہ قانون صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ اس کے کئی ضمنی اجزاءبھی ہیں، مثال کے طورپر1948ء کے مقبوضہ فلسیطن کےشہریوں کو اس قانون کے تحت”یوم نکبہ” منانے پرپابندی عائد کردی جائے گی، یعنی فلسطین پراسرائیلی قبضے کی یاد میں کوئی تقریب منعقد نہیں کی جاسکے گی۔ اسی طرح یہاں پرمقیم ہرشہری کواسرائیل کا قومی شناختی کارڈ حاصل کرنا بھی ضروری ہوگا، جواس سے قبل لازمی نہیں تھا، اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی وزیرخارجہ آوی گیڈورلائبرمین کی جانب سے ایک مسودہ قانون پیش کیے جانے کے بعد وزیر داخلہ کو ااسرائیل کو "یہودی ریاست” تسلیم نہ کرنے والے فلسطینیوں کی شہریت سلب کرنے کا اختیار دیا گیا اوراسرائیل فوج  میں بھرتی ہونے سے انکار کرنے والے شہریوں پر ٹیکسوںکا اضافی بوجھ لادنے کا قانون بھی نئی حکومت کے کارناموں میں شامل ہے۔

مبصرین کا خیال ہے اسرائیل کی جانب سے منظورکیے جانے والے نئے قوانین کا مقصد نہ صرف فلسطینی شہریوں کی آزادی پر قدغنیں لگانا ہے بلکہ اس قانون کے ذریعے لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کا راستہ بھی روکنا ہے۔ اسرائیلی ارباب اختیار کومقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے شدید تشویش لاحق ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف فلسطین میں موجود شہریوں کو نقل مکانی کرنے پرمجبورکررہے  ہیں بلکہ اس قانو کے ذریعے فلسطینی مہاجرین کی واپسی کا راستہ مستقل طور پر بند کیاجارہا ہے۔

نیا قانون نئی جنگ کا پیش خیمہ:

اسرائیلی پارلیمنٹ میں تواتر کے ساتھ فلسطینیوں کے حقوق پر قدغنیں لگانے والے ظالمانہ قوانین کے باعث فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کوئی نیا محاذ جنگ کھل سکتا ہے۔ اسرائیلی حکام کی جانب سے مغربی کنارے اور1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں شہریوں کی بلا جوازگرفتاریوں اوران کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے باعث پہلے فلسطینی شہریوں اور یہودی آباد کاروں کے درمیان حالات سخت کشیدہ ہیں اوردونوں قوموں کے درمیان جھڑپیں روز کا معمول ہیں۔ اسرائیل کے اس نسل پرستانہ اورظالمانہ قانون کے خلاف فلسطین بھرمیں اسرائیل کے خلاف عوامی سطح پر شدید مظاہروں کا امکان بھی دیکھاجارہا ہے، جبکہ انتہا پسند حکومت نے شہریوں کو اس کے خلاف آواز اٹھانے پر پابندی لگانے کا بھی فیصلہ کررکھا ہے۔ ایسے میں تصادم یقینی ہے۔

عرب اراکین پارلیمنٹ اور یہودیوں کے درمیان کشیدگی:

اسرائیلی پارلیمنٹ میں نسل پرستی کے مظہر قانون کی منظوری کے دوران یہودی اراکین اوراسرائیل کے عرب اراکین کے درمیان کشیدگی دیکھنے میں آئی جو اب بھی برقرارہے۔ ظالمانہ قانون پربحث کرتے ہوئےعرب رکن کنیسٹ جمال زحالقہ نے یہودیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ” یہ قانون اسرائیل کے دیوانے پن کا مظہر ہے۔ نسل پرستو! ہم اس قانون کو منظور نہیں کریں گے”۔ ان کے اس بیان کا جواب دیتے ہوئے یہودی رکن کنیسٹ اریہ الداد نے کہا کہ” یہ یہودی ملک ہے، اگرآپ کو یہ قانون منظور نہیں تو یہاں سے نکل جاؤ”۔ اس کا جواب دیتے ہوئے زحالقہ نے کہا کہ "تم غاصب ہو اور یہ میرا وطن ہے، آپ جہاں سے آئے ہیں وہیں دفع ہوجائیں”۔اس موقع پرایک دوسرے عرب رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر عفو اغباریہ نے کہا کہ اسرائیل نے نیا قانون منظورکرکے فلسطینیوں کی گرفتاری کاایک نیا محاذ کھول دیا ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کے لیے جگہ تنگ ہونے کے باعث اسرائیل امریکہ سے گوانتانا جیل کرائے پر لے گاتاکہ نسل پرست قانون کی خلاف ورزی کے جرم میں گرفتار فلسطینیوں کو عقوبت کے لیے گوانتانامو جیل میں ڈالا جاسکے۔

علاقائی اورعالمی سطح پر نسل پرست قانون پرتنقید

فلسطین کی تمام نمائندہ جماعتوں اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) جہاد اسلامی، ڈیموکرٹیک فرنٹ برائے آزادی فلسطین  اورعوامی محاذ برائے آزادی فلسطین کی جانب سے نئے قانون کی منظوری کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے اسرائیل کی نسل پرستی اور فلسطینیوں کے حقوق پرقدغن لگانے کا نیا حربہ قراردیا ہے۔ جبکہ عرب لیگ نے بھی اسرائیل سے قانون منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ قاہرہ میں عرب لیگ کی جانب سے جاری ایک بیان میں نئے قانون کو جنیوا کنونشن کے تحت متعین کردہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قراردیا گیا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی