فلسطینی صدر محمود عباس اس وقت امریکی صدر سے ملاقات کے لیے واشنگٹن میں پہنچے ہوئے ہیں، صدر اوباما سے ان کی ملاقات پر مختلف نقطہ ہائے نظرموجود ہیں۔ ایک نقطہ نظرمحمود عباس اور اس کے گروپ کا ہے،دوسرا فلسطینی اور تیسرا نقطہ نظر عالمی سطح پرکیا جا رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ محمود عباس اپنے پانچ سالہ دور اقتدار اور منصب صدارت کے دوران ذلت کی گہری کھائی میں اتر چکے ہیں،ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی”موساد” کے سابق چیئرمین”افراہیم لیفی” نے اپنے ایک حالہ مضمون میں محمود عباس کی موجودہ حیثٰیت کی درست نشاندہی کی اور کہا ہےفلسطینی صدر اپنے پانچ سالہ دور صدارت کے دوران ذلت کی بد ترین گھاٹی میں اترچکےہیں۔ اسرائیلی عہدیدار کی جانب سے محمودعباس کے موجودہ مقام و مرتبے کی نشاندہی واقعے اور حقیقت کی صحیح عکاس ہے۔ ذیل کی رپورٹ میں ہم اس امر کا تجزیہ کریں گے کہ محمود عباس کس طرح ذلت کے آخری مقام تک پہنچ چکے ہیں۔
فرزندان کی کرپشن کے باعث محمود عباس کی مشکلات
محمود عباس کے دو صاحبزادگان یاسر عباس اور طارق عباس کی کرپشن کی کہانیاں آج کل فلسطین میں زبان زد عام ہیں۔22 اپریل کویک غیر ملکی نشریاتی ادارے”روئٹرز” نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کی محمود عباس کے دونوں بیٹوں کے امریکی تعمیراتی ادارے یوایس ایڈ کے مختلف تعمیراتی منصوبوں کے ٹھیکوں کے دوران بڑے پیمانے پر خورد برد کی ۔ اس کے علاوہ دونوں حضرات نے اپنے والد کے منصب صدارت سے فائدہ اٹھاکرکئی تجارتی کمپنیاں بھی قائم کیں اور ان کمپنیوں میں کئی ملین ڈالر کی رقم کا غبن کیا۔
غیر آئینی صدارت
محمود عباس کے لیے قومی سطح پر ایک پریشانی ان کا خود کو غیر قانونی طور پر منصب صدارت پر متمکن کرنا ہے۔ ان کا یہ اقدام نہ صرف فلسطینی آئین کے خلاف ہے بلکہ فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کے ساتھ دوستی خیر سگالی کی تمام تر کوششوں کے باوجود محمود عباس اسرائیل کے منظور نظر نہیں بن سکے۔ مذاکرات کے ناکام ہتھکنڈوں کے دوران وہ فلسیطنی عوام کو یقین دلاتے رہے کہ وہ اسرائیلی سورماؤں کو مغربی کنارے اور بیت المقدس میں یہودی آباد کاری سے روک دیں گے، لیکن ان کے تمام کے تمام وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اس ضمن میں نہ صرف اسرائیل نے یہودی آباد کاری نہیں روکی بلکہ اس میں تواتر کے ساتھ اضافہ کرتا رہا۔ یوں اسرائیل کے ساتھ یہودی آباد کاری روکے جانے سے متعلق محمود عباس کے وعدے وعیدوں نےقوم کو مایوس کیا اوریہ ثابت ہوگیا ہے کہ محمود عباس محض وقت گزاری اور اپنے عہدے کو طول دینے کے لیے کرہے تھے، ان کے نزدیک بھی مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری روکنا مقصد نہیں تھا۔
البتہ محمود عباس کو اگر کسی معاملے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے تو وہ مغربی کنارے میں تحریک آزادی کے علمبرداروں اور اسرائیل کی خوشنودی کے لیے مجاہدین کا تعاقب ہے۔ محمود عباس نے مغربی کنارے میں امریکی مندوب "کیٹ ڈائٹون” کے اشاروں پر کھیلتے ہوئے مزاحمت کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن سوال یہ ہے محمود عباس کے ان اقدامات سے فلسطینی عوام خوش ہیں یا ان کے خلاف کسی نئے انقلاب کی تیاریاں کررہے ہیں۔ ان کی اس خود ساختہ کامیابی کا انہیں کیاصلہ ملے گا محمود عباس جلد اسے بھی دیکھ لیں گے۔
اسرائیلی داخلی سلامتی کے ادارے”شاباک” کے سربراہ یووال ڈیسکن نے اعتراف کیا ہے محمود عباس کی پالیسیوں کی وجہ سے فلسطینی سخت نالاں ہیں اور وہ ان کا متبادل تلاش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہی اگر مغربی کنارے میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کرائے جائیں تو فلسطینی عوام محمود عباس اور اس کی جماعت فتح کو مسترد کردیں گے اور اس کی جگہ اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کو منتخب کریں گے۔
محمود عباس فتح کے محض نمائشی سربراہ رہ گئے ہیں۔ انہیں اپنی جماعت کے قیادت پر بھی پورا آختیار نہیں،یہی وجہ ہے وہ آج تک اپنی جماعت کی قیادت میں پیدا ہونے والے اختلافات کو ختم کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔
فتح کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس کی تیاریاں تو گذشتہ کئی ماہ سے جاری ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوسکا، اس سوال کا سادہ جواب یہ ہے کہ فتح کی اعلیٰ قیادت میں موجود اختلافات کی خلیج کو ختم نہیں کیاجاسکا۔
افراہیم لیفی نے درست تجزیہ کیا ہے کہ فتح کی سپریم قیادت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے، گذشتہ بیس برس سے یہ جماعت اپنا مرکزی اجلاس طلب نہیں کرسکی اور آئندہ برسوں تک اس کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا۔
لیفی مزید لکھتے ہیں کہ محمود عباس کا اپنی جماعت سے اختیار ختم ہونے کی وجہ سے جماعت کے اندر سے ان کے خلاف بغاوت پیدا ہورہی ہےجس سے محمود عباس کے اقتدار کا کسی بھی وقت دھڑن تختہ ہوسکتا ہے۔
محمود عباس نے خود بچانے اور اسرائیل کے ساتھ اپنے اقدامات کو سند جواز عطا کرنے اور مغرب اور امریکہ کے سامنے خود کو پاک و صاف پیش کرنے کے لیے سلام فیاض کی سربراہی میں ایک نام نہاد حکومت کی تشکیل کی ہے، واقعہ یہ ہے کہ خود محمود عباس کی جماعت کے اہم ستون ہی اس نئی حکومت کے قیام کو خلاف آئین قرار دیتے ہیں۔ فتح کے مرکزی راہنما فاروق قدومی کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ سلام فیاض کے زیرسربراہی مغربی کنارے میں حکومت کے قیام کو وہ قطعی طور غیرآئینی سمجھتے ہیں اوراس کی کسی صورت بھی حمایت نہیں کریں گے۔ اس طرح فتح کے اندر کے اختلافات محمود عباس کے لیے ایک بڑی مشکل ہیں، جن پر قابو پانا ان کے بس سے باہر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
محمود عباس کی ان ناکامیوں اور مشکلات کے باعث نہ صرف فلسطین میں ان کے متبادل کے بارےمیں غور کیاجارہا ہے بلکہ عرب ممالک اور مغرب میں بھی ان کی جگہ کسی دوسری شخصیت کو لانے کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں۔ اس حوالے سے فتح کے اسیر راہنما مصطفی برغوثی کا نام سر فہرست ہے، ان کے علاوہ ایک تاجر منیب مصری کا نام بھی زیر غور ہے، تاہم یہ بات اپنی جگہ الگ حیثٰیت رکھتی ہے مغرب اورعرب دنیا بھی فلسطین میں محمود عباس کی جگہ فتح پارٹی سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کو لانا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب عرب ممالک کے بعد یورپ نے بھی اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) کے ساتھ قرابت داری شروع کردی ہے، سویڈن، فرانس اور اٹلی سمیت متعدد ممالک کے مندوبین اعلیٰ سطح کی شخصیات دمشق میں حماس کے سیاسی شعبے صدر خالد مشعل سے مل چکے ہیں۔ مغرب کے ہاں حماس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور حماس کے بارے محمود عباس کے پروپیگنڈے کے باوجود مغرب کا حماس کی جانب میلان محمود عباس کی سفارتی شکست سمجھی جارہی ہے۔
محمود عباس- اوباما ملاقات
جہاں تک محمود عباس کی امریکی صدر باراک حسین اوباما سے ملاقات کا تعلق ہے تو محمود عباس کیمپ اسے بڑھا چڑھا کرپیش کررہے ہیں اورمحمود عباس کی بہت بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ فتح کی مرکزی کمیٹٰ کے رکن نبیل شعث کا کہنا ہے کہ صدر باراک حسین اوباما کے مصرآنے سے قبل محمودعباس کا دورہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ محمود عباس اپنے اس دورےمیں مسئلہ فلسطین کی حقیقت امریکی صدر کے سامنے رکھیں گے۔
محمود عباس اپنے امریکی ہم منصب سے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل، مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری روکنے اور فلسطین کے ساتھ اسرائیل کے دوبارہ مذاکرت شروع کرانے کے لیے تل ابیب پر دباؤ ڈالنے کو کہیں گے۔
تاہم غیر جانب دار تجزیہ کار محمود عباس اور باراک اوباما کی ملاقات کو ایک دوسرے پہلو سے دیکھتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے محمود عباس اس ملاقات کے ذریعے فلسطین میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی آخری کوشش کریں گے، کیونکہ داخلی سطح پر انہیں درپیش مشکلات کے حل کے لیے انہیں امریکہ کی حمایت ضروری ہے۔ واشنگٹن میں قیام کے دوران وہ امریکی حکام کو باور کرائیں گے کہ نئی امریکی انتظامیہ کے فلسطین بارے منصوبوں کی تکمیل کے لیے وہ ناگزیر ہیں۔
مختصر یہ کہ محمود عباس کا دورہ امریکہ کسی اعتبار سے بھی نہ تو صدر محمود عباس کے لیے مفید رہے گا اور نہ فلسطینی عوام کو اس کا کوئی فائدہ پہنچ سکے گا۔ حماس کے راہنما اسامہ حمدان کا یہ نقطہ نظردرست ہے کہ محمود عباس اپنی ناکامیوں کو کامیابی میں بدلنے بلکہ خود کو بڑی تباہی سے بچانے کے لیے امریکی صدر سے ملکر آخری موقع حاصل کررہے ہیں۔
اسرائیل کو یہودی ریاست قراردینے کے خلاف تمام فلسطینی جماعتوں کااتفاق
فلسطین کی تمام نمائندہ جماعتوں نے اسرائیلی پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے اس قانون کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، جس میں کہاگیا ہے فلسیطین میں آباد جو شخص اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم نہیں کرے گا، اسے قید کردیاجائے گا۔
اسرائیلی پارلیمنٹ میںشامل انتہا پسند مذہبی جماعت” بیت الیہودی” کے سے تعلق رکھنے والے رکن کنیسٹ زبولون اولیونے پارلیمنٹ میں یہ بل پیش کیا، جس میں سفارش کی گئی کہ اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم نہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور ایسے افراد جو اسرائیل کو یہودی ریاست نہ مانے یا اور اس کے خلاف سرگرمیوں میں حصہ لیں تو انہیں گرفتار کرکے قید کردیا جائے۔ پارلیمنٹ میں موجود47 اراکین نے بل کی حمایت کی جبکہ34 نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ نئے قانون کے بموجب اسرائیل کو یہودی ریاست نہ ماننے والےشخص کو ایک سال تک قید میں رکھا جائے گا۔
فلسطین کی نمائندہ جماعتوں اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) اور جہاد اسلامی سمیت تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر اس قانون کو مسترد کرتے ہوئے اسے فلسطینیوں کی نسل کشی کا نیا منصوبہ قراردیا ہے۔ غزہ میں حماس کے راہنما اسماعیل رضوان نے کہا کہ اسرائیل پارلیمنٹ میں منظور ہونے والا نیا قانون یہودیوں کو نسل پرستی کے لیے نیا جواز فراہم کرنا ہے۔ اس باطل قانون کے ذریعے اسرائیل فلسطینی مہاجرین کی واپسی کا راستہ بند کرتے ہوئے فلسطین میں موجود شہریوں کو نکال باہر کرنے کی راہیں تلاش کررہا ہے۔ فلسطینی عوام اس کالے قانون کو کسی صورت بھی قبول نہیں کریں گے، کیونکہ حقیقت میں اسرائیل کاسرے کوئی وجود ہی نہیں۔ اسے کیسے یک یہودی ریاست تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی یہ چال بھی اسی طرح ناکامی سے دو چار ہوگی جس طرح ماضی میں فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کی سازشیں ناکام رہی ہیں۔ اسماعیل رضوان نے فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل سے مذاکرات کے حامی راہنماؤں سے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے اسرائیل کا نیا قانون لمحہ فکریہ ہے۔ انہیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ جن سے وہ مذاکرت کرنے جارہے وہ روز بروز فلسطینی شہریوں کی زندگی تنگ کرنے کے لیے قانون سازی کررہے ہیں۔
فلسطینی عسکری تنظیم جہاد اسلامی کے راہنما شیخ نافذ عزام نے کہاکہ اسرائیل کا نیا قانون صہیونی نسل پرستی کا بین ثبوت اور دنیا کے مسلمہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی بنیاد نے نفرت اور حقارت کے اصولوں پر رکھی گئی ہے اور وہ ہمیشہ کھلے عام فلسطینیوں کو اپنی نفرت ک نشانہ بنانے کے لیے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے اختیار کرتارہا ہے۔ اسرائیل کو فلسطینی شہریوں سے ہمیشہ خوف لاحق رہا ہے، اپنے جرائم پر خوف کو کم کرنے کے لیے اسرائیل نے فلسطینیوں کی زندگی کا دائرہ تنگ کرنے کے لیے ہمیشہ ایسی قانون سازی کا سہارا لیا جس کے ذریعے فلسطینیوں کے خلاف جارحیت کی مزید راہیں تلاش کی جاسکیں۔
ادھر پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ برائےآزادی فلسطین کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے نئے قانون کا مقصد فلسطینیوں کو تقسیم کرنا اور انہیں تنہا کرنا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے فلسطینی نسل کشی کے لیے منظور کیے جانے والے اس نئے کالے قانون کے خلاف کارروائی کرانے کا مطالبہ کیا۔
دوسری جانب جمہوری محاذ برائے آزادی فلسطین نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کا مقصد فلسطین میں آباد عرب شہریوں کو نکال باہر کرنا ہے۔ تنظیم کے ترجمان طلال ابو ظریفہ نے کہا کہ اسرائیلی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت فلسطینیوں کو ان سے واصلی وطن سے نکال باہر کرنا ہے۔