جب سے مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کی سیکیورٹی فورسز اور اسرائیلی فوج کے درمیان سیکیورٹی تعاون شروع ہوا ہے ایک سازش کے تحت فلسطینی مزاحمت کاروں پر فلسطینی اتھارٹی کی جیلوں میں تشدد میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ گذشتہ دو برس سے فلسطینی صدر محمود عباس کے زیر کمانڈ ملیشیا اسلامی تحریک مزاحمت (حماس ) اور دیگر مزاحمتی جماعتوں کے کارکنوں کو پکڑ کر عقوبت خانوں میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنارہی ہے۔ اسرائیلی جیلوں سے سزائیں ختم کرکے رہا ہونے والوں کو عباس ملیشیا گرفتار کرلیی اور انہیں کڑی سزائیں دی جاتی ہیں جبکہ محمود عباس کے عقوبت خانوں سے رہائی پانے والوں کو اسرائیلی فوج گرفتار کر لیتی ہے، اس طرح گرفتاریوں اور سزاؤں کا ایک لا متناعی سلسلہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں ارہا۔ حال ہی میں فلسطینی اتھارٹی کی جیلوں سے رہائی پانے والے القسام بریگیڈ کے بعض اراکین نے مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کی، جس سے عقوبت خانوں میں قیدیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ذیل میں رہائی پانے والے قیدیوں کا مختصر تعارف اور ان کے تاثرات پیش کیے جارہے ہیں
اسیر مجاہد وائل بیطار کنیت ابو محمد
ابو محمد تین بچوں کے باپ ہیں انہیں15 ستمبر2008ء کو فلسطینی اتھارٹی کے انٹیلی جنس سکواڈ نے مغربی کنارے سے گرفتار کیا۔ ان پرالزام عائد کیاگیا کہ انہوں نے اپنے چند دیگر ساتھیوں کے ہمراہ اسرائیلی اٹیمی پلانٹ”دیمونا” پر حملے کی منصوبہ بندی کی۔ دوران حراست انہیں اعتراف جرم کرنے کے لیے مسلسل تشدد کانشانہ بنایا جاتا رہا۔ جسمانی، ذہنی، نفسیاتی تشدد کے تمام تر حربے آزمائے گئے۔ اس دوران وائل بیطار کی ایک ٹانگ بھی توڑ دی گئی۔
اسیر مجاہد احمد العویوی:
مجاہد احمد غیر شادی شدہ ہیں انہیں وائل بیطار کے ساتھ 19 ستمبر مغربی کنارے سےگرفتار کیاگیا۔ گرفتاری کے وقت بھی انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دوران حراست احمد عویوی پر بھی بدترین تشدد کیا گیااور جب ان سے کسی قسم کی معلومات نہ مل سکیں تو عباس ملیشیا کے تفتیش کاروں نے اسےقتل کرنے کی دھمکی دی اور کہا کہ "ہم نے جو سلوک مجد برغوثی کے ساتھ کیا اور اسے جیل میں اذیت دے کر قتل کیا تمہیں بھی اسی انجام سے دوچار کیا جائے گا۔ لہٰذا تمہارے سامنے دو ہی راستے ہیں یاتو اسرائیلی تنصیبات پر حملوں کی تفصیلات فراہم کرو یا موت کو گلے لگانےکے لیے تیار ہوجاؤ”۔ دوران حراست جب ایک دفعہ عویوی کو بجلی کے کرنٹ لگائے گئے تواس کی موت یقینی ہوگئی تھی تاہم بعد ازاں ہسپتال میںطویل علاج کے بعد ان کی زندگی کی رونق پھر سے بحالی ہوئی۔
اسلام شحادہ:
اسلام شحادہ پیشے اعتبار سے تاجر ہیں، شادی شدہ اور ایک بچے کے والد ہیں۔ انہیں عباس ملیشیا نے15 ستمبر2008 کو وائل بیطار سےہمراہ گرفتار کیاگیا۔ گرفتاری کے وقت ان کے ایک پاؤں کو ان کی گاڑی کے دروازے میں رکھ کر اوپر سے دروازے کو زور سے بند کیاگیا جس کے باعث ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ بعد ازاں انہیں بھی وائل بیطار اور عویوی کے ساتھ قید میں رکھاگیا اور شدد تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔
حمزہ جویلس:
حمزہ جویلس الخلیل یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔انہیں 9 اکتوبر2008ء کو ان مغربی کنارے میں ان کے گھر سے گرفتار کیاگیا۔ گرفتاری کے بعد انہیں کئی کئی دن تک دوران حراست کھڑا رکھا جاتا، اس دوران صرف نمازوں اور کھانے کے مختصر اوقات میں بیھٹنے کی اجازت فراہم کی جاتی۔ اس دوران مسلسل جگا کر رکھا جاتا اور نیند آنے کی صورت میں عباس ملیشیا کے تفتیش کاربری طرح مارتے اور ٹھنڈا پانی ڈالتے۔
مہند نیروخ:
مہند نیروخ فلسطین پولیٹکنیکل انسٹیٹوٹ کے طالب علم ہیں۔ 8 اکتوبر2008ء کو گرفتار کیاگیا۔ گرفتاری کے وقت عباس ملیشیا نے ان کے پاؤں میں گولی ماری ایک اہلکار نے جستی تار کے ذریعے انہیں تشدد کانشانہ بنایا۔ نیروخ نے بتایا کہ دوران حراست محمد راغب نامی ایک تفتیش کار اسے اٹھا کر گراؤنڈ میں کئی فٹ اونچے لوہے کے جال کے ساتھ لٹکا دیتا۔ مہند نیروخ کو کہاجاتا کہ وہ جال کو ہاتھوں سے پکڑ کر اس کے ساتھ لٹکا رہے۔
دوران تفتیش اس پر کئی بار غشی طاری ہوتی رہی، اس دوران عباس ملیشیا کے راکین اسے اٹھا کر دیواروں سے پٹختے جس سے اس کے جسم کا بیشتر حصہ اب بھی مفلوج ہے