اسرائیل کی لیبر پارٹی جسے تیز ی سے سکڑنے والی ’’بائیں بازو ‘‘ کی جماعت قرار دیا جاتاہے لیکن اسے بھی ہوش آگئی ہے اور اس نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ دائیں بازو کی انتہا پسند حکومت کا ساتھ دیا جائے – ایہود باراک صاحب کو مبارک ہو ‘ انہوں نے اس وعدے پر عمل در مد شروع کردیا ہے جس کا وہ انتخابات سے پہلے اعلان کرتے رہے ہیں- لیکن حقیقی خوشی کا مقام لیبرمین کے لئے ہے کیونکہ اس کا وجود حالیہ انتخاب کا نتیجہ ہے اور وہ اسرائیل کا حقیقی سربراہ بن گیا ہے – انہوں نے اتحادی حکومت میں شامل ہونے کے لئے صلاح مشورہ بھی نہیں کیا اور جو کچھ وہ چاہتے تھے اس کی شرائط واضح کردیں-
لیکوڈ پارٹی کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کی ٹیم نے دائیں بازو کے انتہا پسند وں سے بارہا ملاقاتیں کیں ‘ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اسرائیلی پارلیمان میں جب بھی انہیں ووٹ درکار ہوں گے ‘ وہ ان کے گے جھک جائیں گے- یہ ممکن ہے کہ وہ امریکہ اور عالمی برادری سے کہیں کہ وہ ’’قیام امن کے لئے کچھ رعایتیں دینے کے لئے تیار ہیں‘ لیکن لیبر مین کو ان کی پارٹی کے لوگ نکال باہر کریں گے-
امریکہ اور اسرائیل کی کوشش ہے کہ حماس کو تن تنہا کردیا جائے اور حماس کو مجبور کردیا جائے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے ‘ تشدد کا راستہ ترک کردے اور سابقہ تمام معاہدوں کو تسلیم کرلے- امریکہ اور لیبرمین اور ان کی اتحادی حکومت فلسطینیوں کی آزادی اور ریاست کے حق کو تسلیم نہیں کرتی‘ لیکن کوئی بھی اسرائیل سے مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ اس بارے میں دو ٹوک موقف اختیار کرے ‘ لیکن یہی وہ بات ہے کہ جو غدار اور منافق کرتے ہیں اور کوئی ان پر الزام بھی عائد نہیں کرتا کیونکہ غدار وصول کرنے والے ہوتے ہیں دینے والے نہیں ہوتے-