وہ ایسی کسی حکومت کے ساتھ معاملہ نہیں کرے گی جس کی سربراہی حماس کررہی ہو یا یہ کہ جس حکومت میں حماس بطور حصہ دار شریک ہو‘ تاہم ایسے مبصرین بھی موجود ہیں‘جن کا خیال ہے کہ یہ حتمی موقف نہیں ہے اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ صدر اوبامہ کی مدت صدارت کے دوران حماس اور فلسطین کے بارے رویے میں تبدیلی آئے گی- سیاستدانوں اور مغربی ممالک کے سفارت کاروں کی سفارشات کی بناء پر اوبامہ کا رویہ مختلف ہوگا‘ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اس پر شکوک و شبہات کااظہار کیا ہے –
انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ ہیلری کلنٹن نے سماعت کے دوران یہ بھی بتایا کہ اوبامہ انتظامیہ حماس کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے مذاکرات کرسکتی ہے جبکہ امریکی حکومت کے قانون کے مطابق حماس سے مذاکرات نہیں کیے جاسکتے- امریکی آئین میں یہ قانون بھی موجود ہے کہ امریکی حکومت ایسے کسی سیٹ اپ کو امداد فراہم نہیں کرے گی جس میں حماس شامل ہو- نیوز ایجنسیوں اور عالمی اخبارات کے مطابق سماعت کے دوران ہیلری کلنٹن نے یہ تسلیم کیا کہ فلسطینی اتھارٹی کو 900ملین ڈالر کی امداد دی جائے گی-
انہوں نے کہاکہ اگرچہ محسوس ہوتاہے کہ حتمی طور پر مفاہمت نہیں ہوسکی ہے‘ تاہم ہماری کوشش ہوگی کہ یہ معاہدہ وجود میں آجائے- انہوں نے کہاکہ امریکی انتظامیہ فلسطینی حکومت سے تعاون کرے گی چاہے اس میں حماس بھی شامل ہو‘ تاہم حماس کو چار رکنی کمیٹی کی شرائط پوری کرنا ہوں گی – اپنے موقف کی تائید میں ہیلری کلنٹن نے لبنان کا ماڈل پیش کیا- ان کا کہناہے کہ ’’آج واشنگٹن ‘‘لبنانی حکومت کو امداد فراہم کررہی ہے جس میں (حماس) کے اراکین بھی شامل ہیں کیونکہ یہ اقوام متحدہ کے فائدے میں ہے کہ ایسی حکومت کی امداد کرے کہ جو انتہا پسندی کو روکنے کی کوشش میں مصروف ہو-
مبصرین کا کہناہے کہ اوبامہ کے برسراقتدار نے کے بعد حماس کے بارے میں امریکی پالیسی پر نظرثانی ہوسکتی ہے اور ایسے بھی لوگ ہیں کہ جو کہتے ہیں کہ لہجے میں فرق محسوس اب بھی کیا جا رہاہے- بی بی سی کی عرب ویب سائٹ پر شامل کی گئی رپورٹ میں بیان کیاگیاہے کہ صدر اوبامہ کے اہم اقتصادی مشیر بال وولکر نے ایک دستاویز پر دستخط کئے ہیں جس میں سفارشات کے علاوہ یہ بات بھی شامل ہے کہ حماس کے بارے میں حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار کیا جائے –
جس گروپ نے مذکورہ تجزیہ (Study)تیا ر کیاہے اس کے چیئرمین ہیلری سگمین کا کہناہے کہ اس کے امکانات موجود ہیں کہ نئی امریکی انتظامیہ ان سفارشات پر کان دھرے خصوصاً یہ کہ حماس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والی پارٹیوں کی حوصلہ شکنی نہ کی جائے – سگمین کا کہناہے کہ یہ تجزیہ ’’مثبت ‘‘ہے وہ حال ہی میں ایک اجلاس میں شریک رہے جس میں امریکی حکومت کے کئی اعلی عہدیدار مثلاً امریکی صدر اوبامہ کے مشرق وسطی میں خصوصی نمائندے جارج میچل بھی شامل تھے –
اس طرح کے خیالات کااظہار مارٹن انڈٹیک نے کیا ہے جو اسرائیل میں امریکہ کے سفیر رہ چکے ہیں اور انتخابی مہم کے دوران وہ ہیلری کلنٹن کے مشیر رہے ہیں – انہوں نے حال ہی میں مدون کی گئی کتاب میں تحریرکیاہے کہ حماس کے بغیر قیام امن کی کوششیں’’ناکامی سے ہمکنار‘‘ہو کر رہیں گی- کتاب میں مزید کہاگیاہے کہ امریکہ چاہتاہے کہ ایک قومی فلسطینی حکومت کے ساتھ معاملہ کرے اور حماس کے ساتھ نچلی سطح کی ملاقاتیں جار ی رکھے – بشرطیکہ حماس اور اسرائیل میں معاہدہ طے پاجائے اور حماس کا فتح کے ساتھ معاہدہ ہوجائے –
یورپی رویے اور دورے
مبصرین نے ایک اور چیز پر توجہ مبذول کرائی ہے اور وہ یہ ہے کہ یورپی پارلیمانی وفود نے دمشق میں حماس کے لیڈروں سے ملاقات کی ہے ان میں برطانوی دارالعوام کا ایک وفد بھی شامل ہے – حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل کی دارالعوام کے اراکین سے یہ پہلی ملاقات تھی- علاوہ ازیں فلسطینی قانون ساز کونسل کا ایک وفد مئی کے پہلے ہفتے میں یورپین پارلیمان کا دورہ کرے گا -تاہم فتح کے لیڈروں کی مداخلت کی وجہ سے یہ دورہ حال ہی میں منسوخ ہوا ہے- قدس پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق فتح نے یورپین پارلیمان سے کہاہے کہ وہ حماس سے اس قدرقربت اختیار نہ کریں – تجزیہ نگاروں کا کہناہے کہ اوبامہ کے دور میں یورپی ممالک کے پارلیمانی نمائندوں کی حماس کے لیڈروں سے ملاقات سے واضح ہوتاہے کہ امریکہ کی طرف سے انہیں اعتماد دلایا گیا ہے کہ یہ ملاقاتیں درست ہیں –
ان مبصرین کایہ بھی کہناہے کہ مغربی ممالک کی جانب سے حماس کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملے کے بعد اس کی ضرورت بڑھ چکی ہے کہ حماس کو فوجی لحاظ سے قوت فراہم کی جائے – یہ ناممکن ہوچکاہے کہ حماس کو نظر انداز کرکے رکھا جائے اس سے یہ اندازہ لگایا گیاہے کہ مزیدوفود حماس کی قیادت سے ملاقات کریں گے اور اس سے نئے راستے کھلیں گے- عالمی برادری سے تعلقات استوار کرتے ہوئے حماس اس پر یقین رکھتی ہے کہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں اس کا وزن محسوس کیا جارہاہے اور اس نے اپنے بنیادی موقف میں تبدیلیاں لانے سے انکار کردیا ہے- سابقہ امریکی حکومت نے یہ شرط عائد کی تھی کہ امریکی انتظامیہ حماس سے اس وقت تعلقات استوار کرے گی اور سفارتی معاملہ کرے گی کہ جب حماس یہ تسلیم کرلے کہ وہ اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت نہ کرے گی- اسرائیل کوتسلیم کرے گی اور پی ایل او نے جو معاہدے کئے ہیں انہیں تسلیم کرے گی یہ وہ معاہدے جو اوسلو کے بعد کئے گئے ہیں –
سٹڈی گروپ کا کہناہے کہ امریکی وزیر خارجہ کے حالیہ بیانات ’’ ایسی کسی حکومت کے ساتھ مذاکرات جس میں حماس شامل ہو‘‘ اور حماس کو اس وقت تک تسلیم نہ کریں گے کہ جب تک یہ چار ممالک کی کمیٹی کی شرائط کو تسلیم نہ کرے جیسی چیزیں ’’سیاسی بلیک میلنگ ‘‘سے کم نہیں – اس سے امریکی انتظامیہ کے کردار میں دوغلا پن نظر آتاہے –
لبنان میں حماس کے نمائندے اسامہ ہمدان کاکہناہے کہ اوبامہ انتظامیہ کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ دہرے طرز عمل سے لا تعلقی کااظہار کرے – اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے سیاسی شعبے کے رکن محمد نضال نے اس پر اپنے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ مشرق وسطی میں امریکی صدر کے نمائندے جارج مچل نے فلسطینی علاقوں کے دورے میں حماس کو ’’شامل ‘‘ نہیں کیا ان کا کہناہے کہ مچل کو اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ جب وہ مقبوضہ علاقوں کا دورہ کرتے ہیں اور حماس کی قیادت کو نظر انداز کرتے ہیں اور اس سے ملاقات نہیں کرتے تو اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ حماس سے جان بوجھ کر لا تعلق رہنا چاہتے ہیں-
اس طرزعمل سے وہ مسئلہ فلسطین کے حل کے قریب نہیں اس سے دورجار ہے ہیں کیونکہ یہ کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے کہ حماس کو بے دخل کرکے ‘مسئلہ فلسطین کو حل کرالے‘ یہ سوال تاحال باقی ہے آیا اوبامہ انتظامیہ فلسطینیوں سے مذاکرات کے درمیان یہ خیال رکھے گی کہ حماس فلسطینیوں کے بدن کا لازمی حصہ ہے- کیا اوبامہ انتظامیہ یہ تسلیم کرے گی کہ حماس کے پاس عوامی طاقت موجود ہے ‘ کیا وہ اس حقیقت کو تروتازہ رکھے گی کہ حماس نے انتخاب جیتے تھے یا امریکی انتظامیہ سابقہ امریکی انتظامیہ کی غلطیوں کو دھراتی رہے گی اور حماس دہشت گردقرار دیتی رہے گی – امریکی صدر اوبامہ اور وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کیا پالیسی اختیار کرتی ہیں یہ جلد ہی واضح ہوجائے گا – ظاہری طور پر تو یہ محسوس ہوتاہے کہ اس معاملے میں کوئی سنجیدہ پیش رفت نہ ہوگی کیونکہ صہیونی لابی کے اثرات وہاں پائے جاتے ہیں-