پنج شنبه 08/می/2025

ایک’’ٹیسٹ ٹیوب ریاست‘‘ اور نکبہ کے 61 سال

اتوار 3-مئی-2009

جنگ عظیم دوم کے بعد وجود میں لائی جانے والی ٹیسٹ ٹیوب اسرائیلی ریاست کو فلسطینی عوام کے خون سے ہولی کھیلتے ہوئے 61سال ہو گئے ہیں- فلسطینی عوام نے 1948ء ہی میں عالمی طاقتوں کے تزویراتی ملاپ سے ناجائز ریاست کو جنم دیئے جانے کے اس واقعہ کو’’ا لنکبہ‘‘ یعنی بہت بڑی تباہی قرار دیاتھا- بعد کے برسوں میں ثابت ہوا کہ عالمی طاقتوں کی تزویراتی ضرورت یہ ’’ٹیسٹ ٹیوب ریاست ‘‘صرف فلسطینی عوام کے لئے ہی نہیں آس پاس کی عرب دنیا کے لئے بھی تباہی اور شرکا ذریعہ بنا- اس کے شر کی تاریخ طویل ہے اور جس کاایک باب غزہ پر مسلط کردہ بائیس روز ہ جارحانہ جنگ کی صورت میں سامنے آیا اس باب کا ایک حصہ غزہ کی ناکہ بندی کی صورت میں اب بھی لکھا جا رہا ہے-

اس میں شبہ نہیں کہ اسرائیل نے 61 سال تک جو خونی، غیر انسانی اور ظالمانہ کھیل کھیلا اس کے لئے اسے امریکہ کی بالخصوص اور اہل مغرب کی بالعموم حمایت حاصل رہی – یہ بھی ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ اسرائیل کو اگر مذکورہ بالا طاقتوں کی سرپرستی حاصل نہ ہوتی تو مشرق وسطی اسرائیل کے خونی پنجوں کے باعث لہو لہو نہ ہوتا  جیساکہ غزہ جنگ نے بھی ایک مرتبہ پھر اس بات کو ثابت کیا ہے کہ اسرائیل کی ننگی جارحیت قطعاً ممکن نہ ہوسکتی تھی اگر اسے امریکہ اور دیگر اندھے سرپرستوں کی اشیرباد حاصل نہ ہوتی-

اکسٹھ برسوں میں اگرچہ بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزرچکا ہے ،اسی وجہ سے زمینی حقائق کی اصطلاح کابہیمانہ استعمال بھی ہوتا رہاہے- لیکن جنگ غزہ کے بعد کچھ بہتری کی علامات بہرحال سامنے آنا شروع ہو رہی ہیں- اتفاق کی بات ہے کہ یہ مثبت اشارے بعض مغربی ممالک کے حوالے سے بھی ہیں- کہ وہ مغربی ممالک جو اپنے انسانی حقوق ،جمہوریت اور امن کے نعروں اور دعوؤں کی جلو میں فلسطینی عوام کے قتل عام کے پشتیبان رہے انہیں بھی احساس ہونے لگاہے کہ تعصب اور نفرت کی بھی کوئی حدہونی چاہیے – مغربی ممالک نے یہ انگڑائی اگرچہ غزہ میں ہونے والی تباہی بسیار کے بعد لی ہے تاہم کہا جاسکتاہے کہ اب مغرب نے مشرق وسطی اور فلسطین کے حوالے سے ہر چیز کو اسرائیلی آنکھ سے دیکھنے کے اپنے رویے میں کسی قدر نظر ثانی کا فیصلہ کرلیا ہے – دیرآید درست آید-

اس درست آید میں برطانیہ کی طرف سے اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت کو فلسطینی عوام کے خلاف استعمال نہ کرنے سے مشرو ط کرنے پر غور ،برطانوی دارالعوام کے ارکان کی فلسطین کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت حماس کے رہنما خالد مشعل سے ملاقات ،برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان کا دورہ غزہ ، ناروے میں اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہوداولمرٹ اور سابق وزیر خارجہ زیپی لیونی سمیت 10سول اور فوجی حکام کے خلاف نہتے اور معصوم شہریوں کے قتل عام اور،ان کے خلا ف فاسفورس بموں کا استعمال کر نے کے مقدمہ کی ابتدائی سماعت کے لئے منظور ی ’’آئرلینڈ کی سن فین پارٹی ‘‘کے رہنما ’’گیری ایڈمز‘‘ کی فلسطین کے آئینی وزیراعظم  اسماعیل ھنیہ سے ملاقات اور اس امر کا اظہار کرناکہ’’ مشرق وسطی میں امن و استحکام کے معاہدوں میں حماس کو شامل کیا جانا ضروری ہے ‘‘

 یہ ایسی علامات ہیں جن کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ مشرق وسطی میں یکطرفہ ایجنڈا مزید آگے بڑھاتے چلے جانے کی رفتارمیں کمی ہونے والی ہے- لیکن ضروری ہے جہاں بعض مغربی ممالک نے حقیقت پسندی اور انصاف پسندی کی آنکھوں سے دیکھنے کا آغاز کیاہے امریکی صدر اوباما بھی اپنے دعووں اور ان عالمی امیدوں کو مرنے نہ دیں، جو ان کے انتخاب کے بعد عالمی سطح پر موجود ہیں-

اب صرف اس امر کی ضرورت ہے کہ اوباما اس’’ ٹیسٹ ٹیوب ریاست‘‘ اسرائیل کی فراہم کردہ دونمبر کی عینک سے دیکھنے کی امریکی رویت کو خیر بادکہہ دیں کیونکہ یہ دنیا کو ’’ان آرڈر ‘‘ رکھنے کے لئے اور عالمی سطح پر ’’جوتا باری کلچر ‘‘کو اس کی ابتداء میں ہی روک دینے کے لئے ضروری ہے – بصورت دیگر خدشہ ہے کہ سابق امریکی صدر بش جس ’’دھج ‘‘ سے عراق سے الوداع ہوئے ہیں ردعمل کا شکار لوگ اور اقوام عالمی لیڈروں کوانہی انداز سے الوداع ہی نہیں کریں گے بلکہ سواگت کے لئے بھی یہ انوکھا انداز اس’’ گلوبل ولیج‘‘ کی شناخت اور عالمی امیتاز بن جائے گا- 

نکبہ جو فلسطینی عوام پر مسلط ہے اس کا ردعمل کم ازکم  ہر اس ملک میں سامنے آ سکتاہے جہاں فلسطینی مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں یاجن ملکوں میں فلسطینیوں کے جائز حق خودارادیت کی حمایت موجود ہے- لہذا عالمی امن او راستحکام کے تقاضے کے تحت ایسے حالات کو راہ نہ دینے کی خاطر یہ ضروری ہے کہ صدر اوباما صرف یک چشمی طرز بصارت سے نجات پائیں اور حقائق کو اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کریں-

آخر میں ایک حرف محرمانہ مسلم دنیا کے لئے یہ ہے کہ 1948ء میں جب اسرائیل کا ناجائز جنم ہو اتو مسلم ممالک کی تعداد صرف دس تھی آج ماشاء اللہ 60کے قریب ہیں- پھر بھی فلسطینیوں کو نکبہ کے اکسٹھویں سال کا سامنا کرنا پڑا – حیرت ہے، افسوس ہے اور حیف ہے کہ ساٹھ ملک مل کر بھی اس’’ بڑی تباہی‘‘ کی بساط کو لپیٹ نہ سکے -کم ازکم نکبہ کے اکسٹھ سال مکمل ہونے پر اس کی مذمت کے لئے ہی سہی مسلم ممالک، تحریکوں، جماعتوں اور این جی اوز کو فلسطینیوں کی آواز میں آواز ملانے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے-

مختصر لنک:

کاپی