رنگین وگیں پہنے ہوئے دو احتجاجیوں نے صدر احمدی نژاد کی تقریر کے شروع میں شور شرابہ کرنے کی کوشش جس کے بعد مغربی ممالک کے سفارتکار کانفرنس سے واک آؤٹ کر گئے- جب احتجاج کے باوجود ایرانی صدر احمد نژاد نے اپنی تقریر جاری رکھی تو وہاں پر موجود مندوبین نے پرجوش تالیاں بجائیں- فرانس کا کہنا تھا کہ یہ ایک نفرت انگیز تقریر تھی-
امریکہ، آسٹریلیا اور جرمنی سمیت کئی مغربی ممالک پہلے ہی کانفرنس کا بائیکاٹ کرچکے ہیں، تاہم جنیوا میں اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کے سفیر ضمیر خان نے ایرانی صدر کے خطاب کو اظہار رائے کی آزادی کا معاملہ قرار دیا- بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’سوال یہ نہیں کہ انہوں نے کیا کہا ہے بلکہ اظہار رائے کے اصول کی بات ہے- اگر آپ آزادی اظہار پر یقین رکھتے ہیں تو پھر آپ کو ان کی بات سننی پڑے گی-
اس طرح یورپی وفد کو بھی واک آؤٹ کا حق تھا، جب انہوں نے سمجھا کہ وہاں بیٹھنا ان کے لیے مناسب نہیں- ضمیر خان کا کہنا تھا کہ صدر احمد نژاد کی تقریر اس تشویش کا اظہار تھی جو عالم اسلام اور دوسرے کئی ملکوں میں پائی جاتی ہے- جنیوا میں ہونے والی کانفرنس کے بارے میں پہلے ہی خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ یہ صہیونیت کے خلاف فورم میں تبدیل ہوسکتی ہے- کانفرنس کو اقوام متحدہ کی 2001ء میں ڈربن میں ہوئی کانفرنس کی کڑی قرار دیا جارہا تھا جسے بغیر کسی نتیجے کے ختم کردیا گیا تھا-
جنیوا میں بی بی سی کی نامہ نگار ایموجین فوکس کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک کا واک آؤٹ اقوام متحدہ کے لیے تعلقات عامہ کی ایک بدترین ناکامی ہے جسے امید تھی کہ کانفرنس اقوام متحدہ کے لیے فرائض کی انجام دہی کی ایک روشن مثال بنے گی- کم از کم تیس ملکوں کے مندوبین کا واک آؤٹ ایرانی صدر کی تقریر کے شروع ہونے کے چند منٹ کے اندر ہوا- کانفرنس ہال سے باہر لائے گئے دو میں سے ایک احتجاجی نے صدر احمدی نژاد کی طرف اس وقت کوئی چیز بھی پھینکی جب وہ تقریر کرنے کے لیے ابھی کھڑے ہوئے تھے- احمدی نژاد واحد سربراہ مملکت ہیں جو اس کانفرنس میں شرکت کررہے ہیں-
اپنی تقریر میں احمدی نژاد نے کہا کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد یورپ اور امریکہ سے یہودی تارکین وطن کو مشرق وسطی بھیجا گیا تھا تاکہ مقبوضہ فلسطین میں ایک نسل پرست حکومت قائم کی جاسکے- بعد میں فرانسیسی سفیر نے کہا کہ جیسے ہی صدر احمدی نژاد نے یہودیوں اور اسرائیل کے بارے میں بات شروع کی اس کے بعد ہمارے پاس کانفرنس میں رہنے کی کوئی وجہ نہیں رہی تھی- برطانوی سفیر بھی ان سفارتکاروں میں شامل تھے جنہوں نے کانفرنس سے واک آؤٹ کیا- انہوں نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ ایسی اشتعال انگیز تقریر کا اقوام متحدہ کی اس کانفرنس میں کوئی جواز نہیں جس کا مقصد نسل پرستی کے موضوع پر غور کرنا اور اس کا حل تلاش کرنا تھا-
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ ناوی پیلے نے کہا تھا کہ وہ کانفرنس کے بائیکاٹ پر حیران اور مایوس ہیں- خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ناوی نے کہا تھا کہ ’’چند ممالک نے ایک یا دو وجوہات کی بناء پر نسلی امتیاز کے حوالے سے اپنا مؤقف ترتیب دیا ہے اور یہ مؤقف ان تمام لوگوں کو نظر انداز کررہا ہے جو نسلی امتیاز سے متاثر ہورہے ہیں- جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں 2001ء میں ہونے والی کانفرنس میں بعض غیر سرکاری تنظیموں نے صہیونیت کے خلاف بیانات دیئے تھے جب کہ کانفرنس میں بعض ممالک کی جانب سے صہیونیت کونسل پرستی سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی-