فلسطینی صدر محمود عباس کو براہ راست جوابدہ سیکورٹی فورسز اور اسرائیلی افواج کے درمیان سیکورٹی تعاون کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی- اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے راہنماؤں نے اس غزہ جنگ میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی ذمہ داری براہ راست اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) پر عائد کردی، جس میں حماس کی سربراہی میں فلسطینی عوام اور مزاحمت نے جارحیت کو شکست دی- مغربی کنارے میں غزہ کے فلسطینیوں کے تعاون کے لیے کی جانے والی کوششوں کا قلع قمع کردیا گیا- غزہ کے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے نکالے گئے جلوسوں کو نہ صرف روکا گیا بلکہ جلوسوں میں شرکت کی کوشش کرنے والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا- یہ تمام کارروائیاں محمود عباس کو براہ راست جواب دہ سیکورٹی فورسز اور اسرائیلی افواج نے باہمی تعاون سے کیں-
فلسطینی سیکورٹی فورسز اور اسرائیلی افواج باری باری اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی ہیں- اسرائیلی فوج فلسطینی مزاحمت کار کو رہا کرتی ہے تو فلسطینی سیکورٹی فورسز اسے گرفتار کرلیتی ہیں- جیسے ہی فلسطینی اتھارٹی کسی مجاہد کو رہائی دیتی ہے تو اسرائیلی افواج اسے گرفتار کرنے کے لیے پہنچ جاتی ہیں- پرامن شہریوں میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے دونوں افواج مغربی کنارے کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں گشت کرتی رہتی ہیں- اسرائیلی گشتی فوجی پارٹیاں مغربی کنارے کی سڑکوں میں جب گشت کررہی ہوتی ہیں تو فلسطینی سیکورٹی فورسز انہیں تحفظ فراہم کرتی ہیں-
قومی مذاکرات کی کامیابی کے لیے حماس کی جانب سے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ
حماس فلسطینی انتشار کے خاتمے کی خواہاں ہے- وہ فلسطینیوں کے اختلافات کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے- حماس نے واضح کیا ہے کہ فلسطینی قومی مصالحت کا واحد حل سنجیدہ مذاکرات ہیں- حماس کبھی بھی مذاکرات کے مخالف نہیں رہی، وہ ہمیشہ ایسے مذاکرات پر زور دیتی ہے جو بامقصد ہوں اور فلسطینی قومی منصوبے کے لیے مفید ہوں-
حماس نے مغربی کنارے کی جیلوں سے فلسطینی سیاسی قیدیوں کی رہائی پر زور دیا ہے- حماس کے مطابق سیاسی قیدیوں کی رہائی مذاکرات کی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے- ایسے ماحول میں مذاکرات غیر معقول ہیں جب مغربی کنارے میں حماس کے کارکنوں سے جیلیں بھری جارہی ہوں- فلسطینی اتھارٹی کی جیلوں میں قید حماس کے کارکنوں کی تعداد چھ سو تک پہنچ چکی ہے- فلسطینی عقوبت خانے ذبح خانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں- فلسطینی عقوبت خانوں میں تشدد کے باعث حماس کے کارکنان مجد برغوثی اور محمد الحاج شہید ہو گئے ہیں جبکہ بیسیوں کارکنان معذور اور تکلیف دہ حالات میں ہیں-
مجد برغوثی اور محمد الحاج کی شہادت
12 فروری 2009ء کو محمود عباس اور اس کے ساتھی غیر آئینی فلسطینی وزیر اعظم سلام فیاض کی جیلوں میں کیا جانے والا تشدد حماس کے دو کارکنوں کو موت کے منہ میں لے گیا- فلسطینی سیکورٹی فورسز کی جانب سے حماس کے کارکنان پر تشدد اسرائیلی مطالبے کو پورا کرنے کے لیے کیا جارہا ہے- یہی وجہ ہے کہ فلسطینی سیکورٹی فورسز اور اسرائیلی فوج کے درمیان تعاون سیکورٹی سازش قرار دی گئی ہے- مختلف اسلامی اور فلسطینی شخصیات نے سیاسی کارکنوں پر تشدد پر محمود عباس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا- ان کے مطابق حماس کے کارکنوں کی گرفتاری اور ان پر تشدد قومی مصالحتی کوششوں کے لیے تباہ کن ہے-
قومی اور اسلامی طاقتوں نے فلسطینی سیکورٹی فورسز کی قید میں حماس کے کارکن محمد الحاج کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے غیر جانبدار کمیٹی تشکیل دینے کی ضرورت پر زور دیا- رام اللہ سے اسلامی تنظیموں کی طرف سے جاری مشترکہ بیان میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس مسئلہ کے حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیموں کو تحقیقات کرنے کی اجازت دی جائے- حماس نے محمد الحاج کی ہلاکت کی ذمہ داری محمود عباس کو براہ راست جوابدہ سیکورٹی فورسز پر عائد کی- حماس کے بیان کے مطابق محمد الحاج کی ہلاکت سیکورٹی فورسز کے تشدد کے نتیجے میں واقع ہوئی- فلسطینی اتھارٹی کا دعوی جھوٹ کا پلندا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ محمد الحاج نے خودکشی کی-
حماس کے پارلیمانی گروپ کی رکن منی منصور نے محمد الحاج کی فلسطینی اتھارٹی کی جیل میں ہلاکت کی تحقیقات کے لیے انسانی حقوق اور فلسطینی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل آزاد کمشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا- منی منصور کا کہنا ہے کہ کمیشن جو رپورٹ مرتب کرے اس کے مطابق محمد الحاج کے قتل میں ملوث افراد کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے اور انہیں جرم کی سزا دی جائے-
فلسطین کی آئینی حکومت کے وزیر برائے امور اسیران کے مشیر فرج الغول نے مغربی کنارے میں مزاحمت کاروں اور مجاہدین کے خلاف کارروائیوں کو محمود عباس کی سیکورٹی فورسز اور قابض اسرائیلی افواج کے درمیان تعاون کا نتیجہ قرار دیا ہے- انہوں نے کہا کہ مغربی کنارے میں حماس، اسلامی جہاد اور اقصی بریگیڈ کے ان شرکاء کی گرفتاریاں مجرمانہ حرکت ہیں جنہوں نے قابض اسرائیل کے دم چھلے بننے کی پالیسی کو مسترد کیا- مجاہدین اور مزاحمت کاروں کی گرفتاریاں حیران کن اور فلسطینی اقدار کے خلاف ہیں- یہ کارروائیاں فلسطینیوں کے ہاتھوں اسرائیلی و امریکی منصوبوں کی تکمیل ہیں- مغربی کنارے کی جیل میں محمد الحاج کی ہلاکت بھی اس سلسلے کی کڑی ہے-
محمد فرج الغول نے انکشاف کیا کہ فلسطینی جیل میں تیس ایسے اسیر موجود ہیں جنہیں اسرائیلی حکومت نے رہا کیا تو رہائی کے بعد فلسطینی سیکورٹی فورسز نے انہیں گرفتار کرلیا- اسرائیلی عقوبت خانوں میں تشدد کا نشانہ بننے کے بعد اب فلسطینی ادارے کے اہلکار ان پر اپنے ہاتھ گرم کررہے ہیں اور انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے جو لوگوں نے وطن اور مسئلہ فلسطین کے لیے قربانیاں دیں ان کو صلے میں جیل، عقوبت خانے، تفتیش اور تشدد دیا جارہا ہے- متعدد اسیران کو تشدد کے باعث ہسپتالوں میں منتقل کرنا پڑا- حال ہی میں فلسطینی اسیر عصام ضمیری کو مغربی کنارے کے طولکرم ہسپتال میں منتقل کرنا پڑا- فلسطینی عقوبت خانے میں تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے باعث ان کی صحت خراب ہوگئی تھی-
فلسطینی وزیر برائے امور اسیران نے کہا کہ فلسطینی قومی اتحاد کیسے ممکن ہے جب حماس کے سینکڑوں کارکن فلسطینی جیلوں میں قید ہیں- یہ کیسے معقول ہے کہ ہم مذاکرات کے لیے بیٹھیں اور محمود عباس کی فلسطینی سیکورٹی فورسز حماس کی قیادت اور کارکنان کے خلاف جرائم کے ارتکاب میں مشغول ہو- گرفتاریاں اور دھمکیاں صرف مردوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ بچوں اور خواتین کو گرفتار کیا جارہا ہے- ان ارکان فلسطین کے گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں جو اسرائیلی عقوبت خانوں میں قید و بند کی مشقتیں کاٹ رہے ہیں-
سولہ فروری 2009ء کو محمود عباس کی سیکورٹی فورسز اسرائیلی افواج کے تعاون سے حماس کے کارکنوں کو گرفتار کرنے کی کارروائیاں کرتی ہے- فلسطینی سیکورٹی فورسز رام اللہ کے مغرب میں قبیا علاقے میں اسرائیلی سیکورٹی فورسز کے تعاون سے داخل ہوئیں اور اسرائیلی جیلوں سے رہائی پانے والے دو شہریوں کو گرفتار کرلیا- واضح رہے کہ قبیا کا علاقہ اسرائیلی فوج کے زیر انتظام ہے-
فلسطینی سیکورٹی فورسز نے اسرائیلی جیل میں قید فلسطینی عمر کے بھائی الشیخ ادریس حسین کو بھی گرفتار کیا- دوسری جانب اسرائیلی افواج نے خربثا بنی حارث دیہات میں داخل ہو کر فلسطینی سیکورٹی فورسز کی جیلوں سے رہائی پانے والے الشیخ عامر محمودہ کو گرفتار کرلیا- الشیخ عامر حمودہ تین دن قبل ہی فلسطینی جیل سے رہائی پاکر گھر واپس آئے تھے- فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’’مرکز انسانی حقوق‘‘ کی جانب سے جاری رپورٹ میں مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی بڑھتی ہوئی دراندازی کی وارداتوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا- مرکز انسانی حقوق کی جانب سے جاری ہفتہ وار رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قابض فوج نے انیس فروری سے چھبیس فروری تک مغربی کنارے میں پنتیس دراندازیاں کیں، اس دوران کم از کم 42 شہریوں کو گرفتار اور انیس کو گولیاں مار کر زخمی کردیا گیا، زخمیوں میں آٹھ بچے بھی شامل تھے- چودہ افراد کو مغربی کنارے کے علاقے ’’بلعین‘‘ سے گرفتار کیا گیا- قابض افواج نے اندھا دھند گرفتاریوں کے دوران خواتین اور بچوں کو ہراساں کیا، گرفتار شدگان میں چھ بچے بھی شامل تھے-
قابض فوج کی جانب سے دراندازی کی کارروائیوں کے دوران شہریوں کے بلاجواز گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ شہری املاک کو بھی تباہ کیا گیا- قابض فوج کی دراندازی کی کارروائی کے دوران ’’طمون‘‘ کے علاقے میں تفتیشی کتوں کے حملے سے ایک معمر فلسطینی بھی شدید زخمی ہوگیا-
فلسطین کی آئینی حکومت کی وزارت داخلہ نے فلسطینی سیکورٹی فورسز کے جاسوس گروپ کا سراغ لگایا جو غزہ کی پٹی میں اسرائیلی کارروائی کے دوران اسرائیل کے ساتھ تعاون کرتا رہا تھا اور اسرائیل کو اہم مقامات، زیر زمین راستوں، فلسطینی لیڈروں کی رہائش گاہوں اور مزاحمتی کارکنوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتا رہا-
وزارت کے ترجمان ایہاب غصین ابو عبد اللہ نے پریس کانفرنس کے دوران ایسی ویڈیو پیش کیں جن میں جاسوس گروہ کے افراد نے اقرار کیا کہ انہیں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے سرکاری طور پر یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ فلسطینی مجاہدین اور سیکورٹی محکمے کے سرکردہ لوگوں اور دیگر ذمہ داران کی تفصیلات اکٹھی کر کے انہیں فراہم کریں- ایہاب غصین ابو عبد اللہ نے مزید کہا کہ حماس اس پر کاربند ہے کہ دیگر جماعتوں خصوصاً فتح کے خلاف کوئی بیان نہ دیا جائے تاہم فتح کے لیڈر سمیر المشھراوی نے فلسطین ٹی وی پر جو حماس کے خلاف لرزہ سرائی کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں- ابو عبد اللہ نے کہا کہ جاسوسوں کا گروپ، غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت سے قبل ہی سرگرم تھا اور اس نے ایسے نقشے تیار کررکھے تھے جن میں اہم مقامات مثلاً مساجد، حکومتی عمارتیں، پلوں اور اہم شخصیات کی رہائش گاہوں کو نشان زد کردیا گیا تھا-
ابو عبد اللہ نے مزید بتایا کہ غزہ کی پٹی میں جنگ کے دوران یہ گروپ افواہیں پھیلاتا رہا کہ اسرائیل فلاں علاقے کو نشانہ بنانے والا ہے اور وہاں سے لوگوں کا انخلا شروع ہوجاتا- مزاحمتی راہنماؤں کے شفا ہسپتال میں چھپنے اور مساجد کو اسلحہ ڈپو کے طور استعمال کیے جانے کی جھوٹی خبریں بھی اسی گروپ نے تیار کی تھیں- گرفتار گروہ کے اراکین میں سے چند ایک نے یہ بھی قبول کیا کہ وہ سابق فلسطینی وزیر داخلہ سعید صیام کی نقل و حرکت کو نوٹ کرنے پر مامور تھے- وزارت داخلہ نے ایسے جاسوس گروپ بنانے کی ذمہ داری محمود عباس پر عائد کی ہے-
23 فروری 2009ء اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) مغربی کنارے نے بیان جاری کیا جس میں فلسطینی صدر محمود عباس کو براہ راست جوابدہ سیکورٹی فورسز پر حماس کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھنے کا الزام لگایا گیا- بیان کے مطابق فلسطینی سیکورٹی فورسز نے مختلف موقعوں پر طولکرم سے حماس کے بیس کارکنان اغوا کیے- اغوا شدہ کارکنوں کو تفتیش کے دوران مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا گیا- انہیں نیند سے محروم رکھا گیا- فلسطینی سیکورٹی فورسز حماس سے تعلق رکھنے والے آئمہ مساجد، اساتذہ، طلبہ اور اسرائیلی جیلوں سے رہائی پانے والے اسیران کو اپنے دفتر طلب کرتی ہیں- گھنٹوں انہیں دفتر میں بٹھایا جاتا ہے- انہیں دوبارہ دفتر میں حاضر ہونے کا ایسے پابند کیا جاتا ہے جیسے وہ نظر بند ہیں-