پنج شنبه 01/می/2025

فلسطینی وزیر زراعت ڈاکٹر محمد آغا کا انٹرویو

بدھ 15-اپریل-2009

غزہ جنگ کے دوران زرعی شعبے کو ستر کروڑ چالیس لاکھ ڈالر مالیت کا نقصان ہوا- جانوروں کی پیدوار کے شعبے کی تباہی سے بیس ہزار فلسطینی خاندان ذریعہ معاش سے محروم ہوگئے- زراعت کی وجہ سے فلسطینی عوام نے اسرائیل کی سیاسی بلیک میلنگ کو مسترد کیا- – دشمن نے ہم پر پروٹین کی جنگ بھی مسلط کررکھی ہے- حماس حکومت غزہ میں مزاحمتی زرعی معیشت کو فروغ دے گی- ان خیالات کا اظہار فلسطین میں آئینی حکومت کے وزیر زراعت ڈاکٹر محمد آغا نے مرکز اطلاعات فلسطین سے انٹرویو میں کیا- انٹرویو کا اردو میں ترجمہ زائرین کے لیے پیش خدمت ہے- 

غزہ جنگ ایک ہمہ گیر اور وسیع تر جنگ تھی- جس میں پروگرام کے مطابق فلسطینی لوازم زندگی کو تباہ کیاگیا- ان میں زرعی شعبہ بھی شامل ہے- زرعی شعبے پر اسرائیلی جارحیت کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟

ج: غزہ کا 25کلومیٹر مربع زرعی علاقہ ہے- جو جنگ کے دنوں میں تباہی کا نشانہ بنا- زرعی شعبے کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کردیاگیا- درختوں کو اکھیڑا گیا، کنویں، ٹیوب ویل اور پانی کا نیٹ ورک تباہ کردیا گیا- وزارت زراعت کی ٹیموں کے جائز ے سے حاصل کردہ نتائج کے مطابق زرعی شعبے میں اب تک براہ راست نقصانات کا اندازہ سترہ کروڑ چالیس لاکھ ڈالر ہے جبکہ بالواسطہ نقصانات علیحدہ ہیں جن کا اندازہ 41کروڑ 3لاکھ ڈالر ہے- قابض اسرائیلی افواج نے جارحیت کے دوران ایک لاکھ باسٹھ پھلدار درختوں کو اکھیڑ دیا- انڈے دینے والی مرغیوں کے 50 فیصد پولٹری فارم اور گوشت کے لئے مرغیوں کے 150 پولٹری فارم تباہ کردیئے گئے- ان پولٹری فارموں میں مرغیوں کے علاوہ دوسرے پرندے بھی تھے- انتفاضہ دوم کی تحریک کے دوران اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں زرعی سیکٹر کو پہنچنے والے براہ راست اور بالواسطہ نقصانات کی مالیت تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر ہے –

 آپ کے خیال میں زرعی زمین کو ہموار کرنے اور تباہ کرنے کی کاروائیاں اتفاقاً ہوجاتی ہیں یا پھر منصوبہ بندی کرکے کی جاتی ہیں؟

ج: واضح بات ہے کہ غزہ میں اقتصادی شعبے کی تباہی اسرائیلی پالیسی ہے- مثال کے طور پر جانوروں کی پیدا وار کے شعبے کی تباہی سے 20ہزار فلسطینی خاندان اپنے بنیادی ذریعہ معاش سے محروم ہوگئے- پولٹری فارمز سے گوشت، مرغی اور انڈے کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا- جس کے باعث اکثر شہری اپنی گوشت کی ضروریات پوری نہیں کرسکتے- گوشت، مرغی اور انڈوں کے عدم استعمال سے شہریوں کی صحت پر برے اثرات پڑتے ہیں وہ اپنے جسموں کو مطلوبہ پروٹین مہیا نہیں کر پاتے جو بیماریوں کی روک تھام کے لئے ضروری ہوتے ہیں-

ہمارے خیال میں گزشتہ غزہ جنگ میں زرعی شعبے کو تباہ کرنا ایک اتفاق نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس طرح کی فوجی کارروائی ہے جو عام طور پر جنگوں میں فوجیوں کی حفاظت کے لئے کی جاتی ہے بلکہ منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے زرعی شعبے کو تباہ کیا گیا- غزہ کی زراعت کی وجہ سے اسرائیلی جارحیت اور ناکہ بندی ناکام ہوئی- ناکہ بندی میں فلسطینی عوام کا ثابت قدم رہنے میں زراعت کا اہم کردار ہے- یہی وجہ ہے کہ فلسطینی عوام نے اسرائیل کی سیاسی بلیک میلنگ کو مسترد کردیا- 

غزہ میں جارحیت کے دوران اسرائیل نے بنیادی طور پر جن علاقوں کو نشانہ بنایا انہیں ہی ٹارگٹ کرنے کی آپ کی رائے میں کیا وجہ تھی؟

ج: اگر ہم تینوں جنگوں کے طرز کا جائزہ لیں تو اسرائیل نے ایسے زرعی علاقوں کو بنیادی طور پر نشانہ بنایا جو پہلے ٹارگٹ نہیں کئے گئے تھے یا پھر انہیں کم نقصان پہنچا- مثال کے طور پر بیت حانون کا علاقہ قبل ازیں تباہ کیاگیاتھا- اس مرتبہ اس کے خلاف جارحیت کم تھی- البتہ جنوبی بیت حانون سے غزہ شہر کے مشرق تک پھیلے ہوئے علاقے کے خلاف خصوصی توجہ کی گئی کیونکہ اس علاقے میں غذائی صنعتیں لگی ہوئی ہیں اور یہ علاقہ پولٹری کی صنعت میں مشہور ہے- بیت لاھیا کا مغرب، زیتون اور خزاعہ کے علاقے زرعی ہیں، لہذا ان کو مکمل طور پر تباہ کیاگیا-

 کیا اس ہمہ گیر تباہی اور بڑے نقصانات کے بعد اب کسانوں کو سکھ کا سانس ملنے کی توقع ہے؟

ج: جی نہیں! میرا خیال نہیں کہ جارحیت ختم ہوگئی ہے- قابض افواج نے ایک کھلی جنگ شروع کررکھی ہے- وہ قانون اور اخلاق کو نہیں مانتی- ہم مانتے ہیں کہ ہمارے سامنے ایک ایسی جنگ ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے حتی کہ یہ جنگ فلسطین تک محدود نہیں بلکہ جن عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ امن و سلامتی کے معاہدے کیے ہیں ان کے لیے بھی خطرہ ہے-

 آپ کہنا چاہتے ہیں کہ اسرائیل دیگر عرب ممالک کے خلاف بھی غیر اعلانیہ اقتصادی اور زرعی جنگ چھیڑ سکتا ہے اور اس جنگ کے کیا اسباب ہیں؟

ج: جی ہاں! وہ عرب ممالک کی فصلوں کی طرف وبائی امراض منتقل کرسکتا ہے یا پھر مارکیٹ میں عرب ممالک کی پیداوار کا مقابلہ کر کے ان کی فروخت کے مواقع ختم کرسکتا ہے- قبل ازیں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اسرائیل نے اپنے کارندوں کے ذریعے عرب ممالک کی زرعی پالیسی میں مداخلت کرنے کی کوشش کی-

 اسرائیلی جارحیت اور ناکہ بندی کے باعث غزہ میں اشیاء خورد و نوش کے بحران کی باتیں ہو رہی ہیں- آپ کیا کہیں گے؟

ج: یقینا! غزہ کے خلاف دو محاذ پر جنگیں جارہی ہیں، ایک تو فوجی اعلانیہ جنگ ہے جبکہ غزہ پر غیر اعلانیہ زرعی جنگ بھی مسلط ہے، جس کے ہم نتائج کا جائزہ لے رہے ہیں- درختوں کے اکھاڑے جانے، جانوروں کو ہلاک کیے جانے، مویشیوں، مرغیوں کے فارمز تباہ کیے جانے کے باعث غذائی بحران پیدا ہوا- پولٹری اور ڈیری کی پیداوار کی قیمت دوگنی ہوچکی ہے- ہمارے خیال میں دشمن نے اپنی ہمہ گیر جنگ کے دوران پروٹین کی جنگ بھی ہم پر مسلط کر رکھی ہے جس کے باعث شہریوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں- وزارت صحت کے مطابق شہریوں میں خون کی کمی کی بیماری میں اضافہ ہوا ہے- خوراک اور پروٹین کی کمی کے باعث قوت مدافعت اور ڈیری کی پیداوار میں کمی کے باعث کیمیائی آلودگی پیدا ہوئی ہے- 

جنگ میں ناکہ بندی کا کیا کردار ہے؟

ج: ناکہ بندی کا تباہ کن کردار ہے- ناکہ بندی جنگ کا پہلا قدم ہے- جنگ کا راستہ ہموار کرنے کے لیے ناکہ بندی مسلط کی گئی- صہیونیوں کو توقع تھی کہ ناکہ بندی کے ذریعے جنگ سے پہلے فلسطینیوں کو اس قدر کمزور کردیا جائے گا کہ جنگ کی بھی ضرورت باقی نہیں رہے گی- مثال کے طور پر غزہ میں گزشتہ دو سالوں کے دوران صرف چار ہزار گائیں لائیں گی جبکہ غزہ کو گوشت کی ضروریات پورا کرنے کے لیے سالانہ تیس ہزار مویشیوں کی ضرورت ہے- مزید برآں جنگ کے دوران مویشیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہلاک کردی گئی- ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اسرائیلی جارحیت غزہ کی حکومت اور عوام کے حوصلوں کو شکست نہیں دے سکتی- تمام صہیونی سازشیں ناکام ہوں گی- 

غزہ جنگ کے دوران بین الاقوامی طور پر ممنوعہ اسلحہ کے استعمال کے شواہد ملے ہیں- کیا اس سے مستقبل میں زرعی شعبے اور پانی پر کوئی منفی اثرات مرتب ہوں گے؟

ج: جنگ کے دوران اسرائیل نے فاسفورس کا استعمال کیا جس کے نقصانات ٹی وی کے ذریعے دنیا نے دیکھے- ابھی تک اس کی باقیات موجود ہیں جو براہ راست خطرہ ہیں- جبکہ انسانی زندگیوں پر فاسفورس کے بالواسطہ خطرات بھی بہت ہیں- غذائی مواد، جانوروں کی انتڑیوں اور رس دار پھلوں میں اثرات داخل ہوسکتے ہیں- اسرائیل نے خشک یورینیم پر مشتمل اسلحہ کا بھی استعمال کیا-

 متاثرہ کسانوں کی مشکلات میں کمی کے لیے حکومت کا کیا کردار ہے؟

ج: فلسطین کی آئینی حکومت کے نزدیک زرعی شعبہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے- کسانوں کو جو تعاون کیا جائے گا وہ ان کی امداد ہوگی، معاوضہ نہیں کیونکہ معاوضہ اسرائیلی حکومت پر ہے جس نے تباہی و بربادی مچائی- پہلے قدم کے طور پر پولٹری فارمز، نرسریوں کے مالکان اور جن لوگوں کے کنویں اور ٹیوب ویل تباہ ہوئے ہیں ان کے لیے دس لاکھ ڈالر مخصوص کیے گئے- متاثرہ کسانوں کے لیے امداد کا یہ پہلا قدم ہے-

 آپ اکثر مزاحمتی زرعی معیشت کی بات کرتے ہیں اس سے کیا مراد ہے اورکیا آپ نے اس سلسلے میں کوئی کامیابی حاصل کی ہے؟

ج: مزاحمتی معیشت سے مراد مختلف زرعی پالیسیاں اختیار کرنا ہے جس کے ذریعے کسان خود کفیل بن جائے، جو چیز مقامی طور پر پیدا کی جاسکتی ہو اس میں کسان کو خود کفیل بنایا جائے اور باہر سے لانے کی ضرورت باقی نہ رہے- ماحولیاتی ذرائع کو اس طرح استعمال میں لایا جائے کہ آنے والی نسلوں پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں- بالخصوص پانی کے ذخائر کے متعلق حکمت عملی بنائی جائے- حکومت نے 2010ء کو زراعت کا سال قرار دیا ہے-

مختصر لنک:

کاپی