فلسطینی میڈیا کلب کے چیئرمین عماد افرنجی نے انکشاف کیا کہ غزہ جنگ کے دوران صہیونی ذرائع ابلاغ نے صرف خبریں اور معلومات کی منتقلی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس نے ایک آلہ جنگ کا کردار ادا کیا- اگر صہیونی میڈیا کے بس میں ہوتا تو وہ غزہ پر ایٹمی بم برسا دیتا- جنگ ابھی تک ختم نہیں ہوئی- صہیونی ذرائع ابلاغ نئی جارحیت کے فروغ کے لیے کام کر رہا ہے- غزہ جنگ کے دوران اسرائیلی فوجی ترجمان اور صہیونی صحافی کے دوران کوئی فرق نہیں تھا-
صہیونی امور کے ماہر صالح نعامی نے کہا کہ اسرائیل میں سرکاری میڈیا نہیں ہے- جب تمام صہیونی میڈیا اسرائیلی حکومت کی زبان بولتا ہے تو اسے سرکاری ترجمان میڈیا رکھنے کی ضرورت نہیں ہے- نجی میڈیا سرکاری فرائض بخوبی سرانجام دے رہا ہے- صالح نعامی نے انکشاف کیا کہ 2008ء جنگ میں اسرائیلی میڈیا نے پہلی دفعہ رضاکارانہ طور پر سرکاری خدمت کی- اسرائیلی فوجی ترجمان نے میڈیا پر پابندی عائد کردی تھی کہ سرکاری بیانات اور معلومات کے بغیر جنگ کے رخ کے بارے میں کوئی بات نہ کی جائے- صہیونی ذرائع ابلاغ اس پابندی کو دل و جان سے نہ صرف قبول کیا بلکہ اس پابندی کے خلاف کوئی عمل نہ کرنے کا پختہ عزم کیا-
صالح نعامی نے واضح کیا کہ اسرائیلی اینکر پرسنز اور تجزیہ کاروں نے رضاکارانہ طور پر بمباری کے لیے فوج کو صلاح مشورے دیے- اسرائیلی چینل 2 کے ایک تجزیہ کار نے کہا کہ ’’اب ہم رفح پر بمباری کیوں نہ شروع کریں-‘‘ تجزیہ کار نے سرحدی علاقے کی تباہی کی اہمیت کے متعلق متعدد نکات بیان کیے- صالح نعامی کا کہنا تھا کہ اسرائیلی ذرائع ابلاغ جنگ کے دوران تمام اخلاقی قدروں سے عاری ہوگیا-
کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار طلال عوکل نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ غزہ جنگ کے دوران صہیونی قومیت عروج پر تھی- صہیونی ذرائع ابلاغ نے اپنے آپ کو جنگ کے لیے وقف کردیا- اس نے کسی اخلاقی اور پیشہ وارانہ قدر کا خیال نہ رکھا- میڈیا جنگ میں ایک فوجی دستہ بن گیا- اسرائیل نے جنگ سے پہلے مہم شروع کردی تھی کہ وہ اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے میزائل حملوں کی ضد میں ہے اور اسرائیلی شہری حماس کے میزائلوں کا شکار بن رہے ہیں- فلسطینی اور تمام عرب ممالک جانتے تھے کہ حالات جنگ کی طرف جارہے ہیں- عرب میڈیا کے طرز عمل نے اسرائیل کے لیے غزہ جنگ میں جنگی جرائم کا جواز فراہم کرنے کا کام کیا- اسرائیلی میڈیا کے مقابلے کا حل عرب اور فلسطینی ذرائع ابلاغ کی تشکیل نو ہے- میڈیا کی تشکیل نو پیشہ وارانہ بنیادوں پر کی جائے-
طلال عوکل نے واضح کیا کہ فلسطینی انتشار متعدد زاویوں سے اسرائیل کے لیے جواز فراہم کررہا ہے- صہیونی ریاست ابھی نئی جنگ کی تیاری میں مصروف ہے، جس کا مطلب ہے کہ فلسطینی عوام کے خلاف جنگ کے دروازے کھلے ہیں- صہیونی ذرائع ابلاغ نے جنگ کی تیاری میں مصروف عمل ہیں- جب تک صہیونی قومیت کے مقابلے میں فلسطینی قومیت کمزور ہے فلسطینی انتشار کا خاتمہ نہیں ہوسکتا-
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صہیونی امور کے ماہر عدنان ابو عامر نے کہا کہ صہیونی میڈیا کے طرز عمل سے واضح ہوتا ہے کہ وہ فوج کے پیچھے کھڑا ہے- اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک نے حماس سے جنگ بندی کرنے سے قبل قومی میڈیا کمیٹی تشکیل دی تھی جو جنگ کی تیاری کررہی تھی- اس کمیٹی کے بارے میں انکشاف غزہ جنگ کے خاتمے کے بعد کیا گیا- عدنان ابو عامر نے واضح کیا کہ اسرائیل نے غزہ پر جارحیت کا آغاز ہفتے کے روز کیا اور ہفتے کے دن اسرائیل میں چھٹی ہوتی ہے، لیکن چھٹی کے باوجود تمام سٹوڈیو میں میڈیا کا سٹاف موجود تھا- صہیونی میڈیا نے جنگ کو نہ صرف منصفانہ ظاہر کرنے کی کوششیں کیں بلکہ فوج کو فلسطینیوں کے مزید قتل پر ابھارا- اس کے لیے اخبارات میں اشتہارات شائع کیے گئے-
صہیونی میڈیا نے خبروں کو بار بار دوہرانے کا طرز عمل اپنایا- ایک ہی خبر کو دو دو دن تک مختلف انداز سے بار بار دہرایا جاتا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی کہ فلسطینی معاہدوں کی خلاف ورزی کررہے ہیں-
عدنان ابو عامر نے جنگی واقعات کی تفصیلات نہ نشر کرنے پر فلسطینی میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا انہوں نے کہا کہ فلسطینی میڈیا نے واقعات کو تفصیل سے بیان نہیں کیا جبکہ صہیونی میڈیا پر اسرائیلی تجزیہ کار تین زبانوں میں تجزیہ کرتے رہے، جن کے تجزیوں کا بنیادی نقطہ اس دعوی کو حقیقی بنانا تھا کہ غزہ کے خلاف جنگ اسرائیل کی ضرورت ہے کیونکہ غزہ سے اسرائیل کے وجود کو خطرہ ہے-