تاہم ذرائع ابلاغ نے صرف ایک پہلو کو نظر انداز کیا ہے اور وہ پہلو یہ ہے کہ صہیونیوں نے جانوروں کے ساتھ کیا کیا – غزہ کی پٹی میں کئی ایک چڑیاگھروں کو تباہ کردیاگیا جوکہ ساحل سمندر کے بعد تباہ حال گھروں اور جانوروں کے بچوں کے لئے تفریح کا دوسرا ذریعہ ہیں- شادہ چڑیاگھر زیتون علاقے کے مشرق میں واقع ہے اور یہ غزہ کی پٹی کا مشرقی علاقہ ہے- رقبے اور انواع و اقسام کے جانوروں کے لحاظ سے اسے غزہ کا سب سے بڑے چڑیاگھر ہونے کا اعزاز حاصل ہے – اسرائیلی حملہ آوروں نے اس پر حملہ کیا- اس کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا ا ور اس چڑیا گھر میں موجود 95فیصد جانورہلاک کردیئے گئے ان کو اس لئے تباہ کیاگیا کیونکہ یہ بھی تو غزہ میں موجود ’’چیزوں ‘‘ میں سے ایک ’’چیز ‘‘ تھے-
فلسطین انفرمیشن سینٹر کے نمائندے نے چڑیا گھر کے ڈائریکٹر عماد قاسم سے ملاقات کی‘ انہوں نے تصدیق کی کہ چڑیا گھر پر اسرائیلی حملہ آور ہوئے اور چڑیا گھر سے متعلقہ تمام املاک کو برباد کردیاگیا-قاسم کا کہناہے کہ کئی جانوروں کو صہیونیوں نے براہ راست گولیوں اور گولہ بارود کا نشانہ بنایا- دارالحیوانات (چڑیا گھر) کی تباہی سے قبل غزہ کی پٹی میں رہنے والے لوگوں میں سے جو سمجھتا کہ روزانہ کے معاملات سے جان بچا کر کچھ لمحے سکون کے گزار لئے جائیں تو وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اس چڑیا گھر کا رخ کرتے – ساحل سمندر کے بعد چڑیا گھر کے جانور بچوں اور بڑوں کی دلچسپی کا اہم ترین مرکز ہوتے ہیں- اسرائیلی بحریہ کی کشتیوں نے ساحل سمندر کو نشانہ بنایا تو لوگ ساحل پر جانے سے خوفزدہ ہوگئے – تین سال پہلے ایک خاندان کے افراد ساحل سمندر پر موجود تھے کہ راکٹ گرا اور ہدی غالیہ کا پورا خاندان شہید ہوگیا ‘ ان میں شیر خوار بچی ہدی غالیہ بھی شامل تھی‘ جو موت کا نوالہ بنی-
چڑیا گھر کے بارے میں آنے جانے والوں کے تاثرات کے بارے میں قاسم نے بتایا کہ یہاں لوگ بڑی تعداد میں آتے تھے ‘ ہر شعبہ ہائے زندگی اور ہر گروپ کے لوگ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں نادر و نایاب قسم کے کئی جانور موجود ہیں‘ تعطیل کے دنوں میں آنے والوں کا تانتابندھ جاتا‘ ان میں سکول کے بچوں کے گروپ بھی ہوتے جو با جماعت آگئے قاسم اس پر حیران ہے کہ چڑیا گھر کے جانوروں نے ایسا کونسا جرم کیاتھا کہ ان کے ساتھ یہ بدسلوکی کی گئی ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ ان بچوں ‘ بوڑھوں ‘عورتوں اور مردوں کو کچھ لمحات کی تفریح فراہم کرتے تھے جو فلسطینیوں پر مسلسل اسرائیلی حملوں کے سب تقریباً ذہنی مریض بن چکے ہیں- قاسم کا سوال یہ تھاکہ ’’انسان دوستی ‘‘کی دعویدار انجمنیں کہاں ہیں اور عالمی ادارے کہاں ہیں ‘ انہیں یہاں آنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کس طرح ان جانوروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیاہے‘ گویا کہ ان جانوروں کو موت کے گھاٹ اتارنا بھی دل لگی ہو‘ کیا یہ جانورقابض حکومت کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے؟کیا جانوروں کے پاس ہتھیار ہوتے ہیں؟ ان کا کیا جرم تھا کہ ان کو اس انداز میں ہلاک کردیا گیا ؟
غزہ کے چڑیا گھر (دارالحیوانات ) کے ڈائریکٹر کا کہناہے کہ چڑیا گھر کو پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ ایک ملین ڈالرسے زیادہ ہے – ان کا کہناہے کہ اسرائیلی فوجی دستوں نے چڑیا گھرکے عین وسط میں زیتون پر حملے کے دوران پریشنل ہیڈکوارٹر بنارکھے تھے- ان کا کہناہے کہ صہیونی فوجیوں نے نشانے کی پریکٹس کے لئے جانوروں کو استعمال کیا‘ ان کے قتل سے لطف اندوز اٹھانے کے لئے ان پر بندوقوں اور راکٹوں پر لگے ہوئے چھرے سے وار کرتے- قاسم کا کہناہے کہ قابض اسرائیلی فوجیوں نے سینکڑوں درختوں کو کا ٹ پھینکا‘ چڑیا گھر کی عمارتوں اور کیفے ٹیریا کو نقصان پہنچایا –
قاسم نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ میں اس اطلاعاتی ادارے کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں خصوصاً ان لوگوں کو جو اسرائیل میں رہتے ہیں یہ پیغام دینا چاہتاہوں کہ جانوروں کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک کیاگیا ہے اس کی اسرائیلی عوام کی طرف سے بھی مذمت ہونا چاہیے- انہوں نے کہاکہ صہیونی قوتوں کی جانب سے بے زبان جانوروں کے ساتھ جو سلوک روا رکھاگیا ہے اس کی کوئی انتہا نہیں ہے- اس چڑیا گھر میں مختلف علاقوں سے لائے گئے شیر بھیڑیے ‘لومڑ ‘مگرمچھ اور جنگلی بلیاں موجود ہیں علاوہ ازیں مقامی طور پر پائے جانے والے جانورمثلاً ہرن اور بندر موجود ہیں اس چڑیا گھر میں کئی قسم کے پرندے بھی موجود ہیں ‘ ان کی اکثریت کو بے رحمی سے قابض اسرائیلی افواج نے جاں بحق کردیا-
بارہ سالہ یوسف احد‘اس چڑیا گھر کی اپنے والدین کے ہمراہ ہر ہفتے سیر کیا کرتاتھا اور لطف اندوز ہوتاتھا- اس کے لئے یہ امربڑا تکلیف دہ تھاکہ چڑیا گھر کو پتھروں میں تبدیل کردیاگیا اور جو جانوروہاں موجو دتھے ان کے کوئی آثار باقی نہیں ہیں- فلسطینی بچے نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نمائندے کو بتایا کہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھاکہ یہودی جانوروں کو بھی مار ڈالیں گے – بچے محمود غرہ کا سوال تھاکہ ان پرندوں اور جانوروں کو کس جرم کی بناء پر ہلاک کردیاگیا‘ ان کا کیا قصور تھا ؟جو قاتل یہودی انسانوں اور بچوں کو موت کے منہ میں دیتے ہوئے نہیں شرماتے ان کے لئے کیا عجب ہے کہ وہ جانوروں کو موت کے گھاٹ اتار دیں – محمود غرہ کاکہناتھاکہ ’’ان ظالموں نے میرے باپ کو مار ڈالا ‘ پھر وہ جانوروں کو کیوں نہ مار یں گے؟ ان حالات میں فلسطینی اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ اللہ ہی ہمارا کارساز ہے اور بہترین معاملہ کرنے والا ہے –