پنج شنبه 01/می/2025

دیر یاسین سے بیت حنون تک

پیر 13-اپریل-2009

اسرائیل قتل و غارت اور دروغ گوئی کی مسلسل تاریخ کا نام ہے – نام نہاد ’’یہودی ریاست ‘‘ کے بارے میں کہا جاسکتاہے کہ یہ انسانیت کے خلاف جرم کا نام ہے –

اس کا وجود اس وقت سے جرم ہے جب صہیونیوں نے یہ دعوی کرنا شروع کیا کہ یہ سرزمین ان لوگوں کی ہے جن کے پاس زمین نہیں ہے- صہیونیت ایک مجرمانہ کردار ہی رہے گا کیونکہ پوری ایک قوم کو اس کی سرزمین سے نکال باہر کیاگیا تاکہ ایک دوسری قوم اس کی جگہ لے سکے-

صہیونیت نے اپنا ذہن تبدیل کیا ہے نہ اپنا دل اور نہ ہی اپنا ڈھانچہ تبدیل کیا ہے- یہ ایک ایسا تباہ کن مرض ہے جس کی بنیاد جھوٹ‘ دھوکہ دہی اور ہوس پر رکھی گئی ہے- صہیونی جو ظلم و زیادتی کرتے ہیں یہ ان کے لحاظ سے ایک عام بات ہے- حقیقت یہ ہے کہ انصاف‘ امن اور انسانیت ایسے تصورات ہیں کہ صہیونی جن سے نا آشنا ہیں کیونکہ صہیونیت کا بنیادی تصور ہی یہ ہے کہ وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں- عملی صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل کے نزدیک اہم ترین کام یہ ہے کہ شکار بننے والوں کی جڑیں اکھاڑ پھینکی جائیں‘ ان کو جلا وطن کر دیا جائے اور ان کو دباؤ میں رکھا جائے- اس لحاظ سے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ صہیونیوں کے ساتھ امن کا قیام ممکن ہوسکے – کینسر کے مرض کا علاج ممکن ہے صہیونیت کا علاج ممکن نہیں ہے –

دیر یاسین کے اندوہناک واقعے کو ساٹھ برس گزرچکے ہیں کہ جب صہیونی قاتل گروہوں نے بیت المقدس میں نہتے معصوم ‘ عرب دیہاتیوں کے کشتوں کے پشتے لگادیئے تھے- ولیدخالدی کی تاریخ ساز کتاب ’’All that renians‘‘کو 1948ء میں فلسطینی علاقے پر اسرائیلی قبضے اور فلسطینیوں کے جبری انخلاء کے بارے میں اگر سب سے اہم نہیں تو اہم ترین ذرائع میں سے ایک سمجھا جاتاہے –

قتل عام کرنے والے ’’Irgunists‘‘جنہوں نے ظلم ڈھایا‘ میں سے ایک گروپ نے کچھ فلسطینیوں کو اپنی گاڑیوں میں ڈالا اور ان ’’قیدیوں ‘‘کی فلسطین کی سڑکوں پر نمائش کرائی اور اسے ’’جلوس فتح ‘‘ کی شکل دے کر گھومتے پھرتے رہے اورعام یہودی قابضین انہیں دیکھ کر تالیاں بجاتے رہے- بعد ازاں ان قیدیوں کو قریبی تہہ خانے میں لے جایاگیا جہاں انہیں ایک ایک کرکے قتل کردیاگیا- اسرائیل میں چند سڑکوں کے نام  Irgunاور Palmachقاتل دستوں کے نام پر رکھے گئے ہیں جنہوں نے گاؤں کو فتح کیا اور شہریوں کو تہہ تیغ کیا –
1951ء میں کفر شاؤل نفسیاتی ہسپتال کی اسی گاؤں کی جگہ پر تعمیر شروع ہوئی اور 1980ء میں گاؤں کی باقیات کو ختم کرکے ایک اور یہودی  آبادی وجود میں لائی گئی- اسی کے بعد گاؤں کے قبرستان کو بھی بلڈوز کردیاگیاتاکہ ایک نئی یہودی آبادی کے لئے شاہرہ بنائی جائے- فلسطینیوں کی نسل کشی کی مہم اس انداز میں چلائی گئی کہ قصبے‘ دیہات اور چوپال ایک ایک کرکے ختم کردئیے گئے کہ وہاں کے مقامی باشندوں کو چار دانگ عالم میں منتشر کردیاگیا اور یہ کام مشرقی یورپ سے  آنے والے اشک نازیوں نے سرانجام دیا- جی ہاں ‘ اس طرح فلسطین کو اسرائیل میں تبدیل کیاگیا- آج دہشت اور وحشت اور قتل وغارت کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور  آج حاملہ عورتوں کے پیٹ سنگینوں سے نہیں پھاڑے جاتے جیساکہ دیر یاسین میں ہواتھا نہ ہی خوفزدہ شہریوں کو خاک و خون میں نہلانے کے لئے سٹین اوربرین گنیں استعمال کی جا رہی ہیں بلکہ ان صہیونیوں کے بیٹے اور بیٹیاں اور پوتے اور پوتیاں فاسفورس بم اور دیگر مہلک ترین ہتھیار استعمال کررہے ہیں اور اس کامقصد یہ ہے کہ ’’یہودی‘‘ باقی رہ جائیں-

کہا جاسکتاہے کہ جرم وہی ہے ‘ اہداف وہی ہیں اور دروغ گوئی کا وہی سلسلہ برقرار ہے- دیر یاسین کے ساٹھ برس بعد ‘ ہمارے سامنے وہی بدنما ریاست موجود ہے کہ جو جرائم کو جنم بھی دیتی ہے اور ان کی پردہ پوشی بھی کرتی ہے پھر اس کے ساتھ ساتھ جمہوریت اورتہذیب پابند ہونے کا دعوی بھی کرتی ہے – ایک ایسی ریاست کے بارے میں کیا کہا جاسکتاہے کہ جو اپنی فوج اور اپنی فضائیہ کو حکم دیتی ہے کہ معصوم لوگوں کا قتل عام کریں – ان کے گھروں کو اڑا دیں‘ ان کی املاک کو ریزہ ریزہ کردیں ‘ اور یہ ریاست بعد ازاں یہ کہتے نہیں شرماتی ’’ہمارا یہ مطلب نہیں تھا ‘‘ اور ’’ہم فلسطینیوں کے ظہور کو کس طرح روک سکتے ہیں ‘‘یہ سب کی سب فلسطینیوں کی غلطی ہے ‘جنگ تو نام ہی تشدد اور حادثات کا ہے-
 
اصل جرم فلسطینیوں کا ہے- دیر یاسین کا اندوہناک سانحہ ‘ اسرائیل کی تاریخ میں کوئی نیا واقع نہیں ہے‘ اس بڑے قتل عام کے بارے میں سابق اسرائیلی وزیراعظم مناحیم بیگن کا کہناہے کہ وہ ایک ’’معجزہ‘‘ تھا اس میں اسرائیلی رویے کی خوب عکاسی ہے –
 
غزہ میں ہونے والے حالیہ خون خرابے میں جہاں اسرائیل نے وہی کچھ کیا جو یہودیوں کے ساتھ ڈریسڑن شہر میں ہوا تھا – ان کے نزدیک یہ ایک ’’فطری تسلسل‘‘ ہے‘ دیر یاسین‘ طنطورہ ‘ دوائمے‘ کفر قاسم اور دیگر جرائم جو ہمارے دور کے نازیوں کے ہاتھوں وجود میں آئے ہیں ‘ فلسطین اور مشرق وسطی کے دیگر لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان کے نزدیک عام بات ہے- صہیونیت کے اندر تباہی و بربادی کا بلا خیز نظریہ موجود ہے ‘ نہ اس کی اصلاح کی جاسکتی ہے نہ اسے انسانیت کا جامہ پہنایا جاسکتا ہے ‘ صہیونیوں کے اندر سچائی ‘انصاف ‘امن اور انسان دوستی کا جرثومہ ہی موجود نہیں ہے –

سچی بات تو یہ ہے کہ صہیونیوں کے ساتھ اپنا وجود برقرار رکھنے کا مطلب یہ ہوگاکہ  پ اپنے عزت و وقار سے لاتعلقی ظاہر کریں اور اپنے مستقبل سے لاپرواہ ہوجائیں – کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اسرائیل کے قیام کے روز سے فلسطینی یہی تجربہ کررہے ہیں‘ تاریخ سے ثابت ہے کہ ایسی ریاست کہ جو بے ایمانی کو اپنی پالیسی بنالے ‘ جرائم کو اپنی چھتری بنالے اور نسل پرستی کو اپنی روح بنالے ‘ کبھی بھی باقی نہیں رہ سکتی-

بلاشک و شبہہ میں یہ سب کچھ اسرائیل کے بارے میں کہہ رہاہوں- یہودیوں کے بارے میں نہیں کہہ رہا- صہیونیوں کے مذموم اقدام کی وجہ سے دنیا بھر کے یہودیوں کو منفی الفاظ سے یاد کیا جاتاہے- لیکن صہیونیت اس میں کامیاب ہوچکی ہے کہ اس نے بہت سے یہودیوں کو اس کام پر لگا دیا ہے کہ وہ بدی کا دفاع کریں- اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر طاقت کے پجاری بن جائیں اور اس سب کامقصد یہ ہے کہ جدید دور میں سونے کے بچھڑے اسرائیل کے تقدس کو بحال رکھا جائے- اس لئے ضروری ہے کہ اپنی بقا کے لئے یہودی صہیونیت سے لا تعلقی کا اظہار کردیں- اگر ایسا نہیں کریں گے تو سونے کا بچھڑا انہیں جہنم میں لے جائے گا‘ انہیں اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ اگر کسی قوم میں جبر وتشدداورظلم و ستم   عام ہوجائے  تو اس کا جلد یا بدیر زوال یقینی ہوتاہے –

مختصر لنک:

کاپی