پنج شنبه 08/می/2025

چارفلسطینی پچیس سال سے زائد عرصے سے اسرائیلی عقوبت خانوں میں ہیں

ہفتہ 4-اپریل-2009

مقبوضہ فلسطین میں اسلامی تحریک کے سربراہ الشیخ رائد صلاح نے اسیران کی رہائی کو مسئلہ فلسطین کی اولین ترجیح قرار دیا ہے-

انہوں نے مشرقی بیت المقدس میں پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اسیران کی رہائی پناہ گزینوں کی وطن واپسی اور بیت المقدس کی آزادی کی طرح اہم ہے- اسیران نے فلسطینی عوام کی آزادی کی جنگ لڑی ہے- الشیخ رائد صلاح نے واضح کیا کہ مقبوضہ بیت المقدس کے قدیم اسیران کی تعداد بیس ہے- ان میں سے چار ایسے اسیران ہیں جو پچیس سال سے بھی زائد عرصے سے اسرائیلی عقوبت خانوں میں قید ہیں-
 
بارہ اسیران بیس سال سے اور چار اسیران سولہ سال سے اسرائیلی جیلوں میں بند ہیں- مقبوضہ فلسطین کے اسیران کے سربراہ سامی یونس 1983ء سے اسرائیلی قید میں ہیں ان کی عمر 80 سال سے تجاوز کرچکی ہے- الشیخ صلاح نے عرب اور صہیونی اسیران میں فرق کرنے کی اسرائیلی پالیسی کے حوالے سے کہا کہ عرب اسیران ابھی تک قید ہیں جبکہ ان یہودی مجرموں کو قید کے کچھ عرصے بعد ہی رہا کردیا گیا تھا جنہوں نے عربوں کا قتل کیا-
 
کوئی بھی یہودی مجرم خواہ اس نے یہودی کا ہی قتل کیوں نہ کیا ہو، اس نے اتنی لمبی سزا نہیں کاٹی- الشیخ صلاح نے مزید کہا کہ کوئی بھی صہیونی حکومت فلسطینی اسیران کے حالات کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دیتی- تمام حکومتوں نے اپنے اپنے طریقے سے اسیران کی زندگی کو مشکل بنایا- ہر حکومت نے فلسطینی اسیران سے قانونی طریقے سے معاملات طے کرنے سے انکار کیا- الشیخ رائد صلاح کی پریس کانفرنس میں اسرائیلی جیلوں سے رہائی پانے والے شامی اسیر سیطان ولی بھی شامل تھے-

انہوں نے شامی اسیران کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کے تبادلے کے مذاکرات میں ناکامی کے بعد شامی اسیران کو بھی اسی طرح انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس طرح فلسطینی اسیران کو بنایا جارہا ہے- سیطان ولی نے کہا کہ اسرائیلی یرغمالی فوجی گیلاد شالیت کے اہل خانہ کو اس بات کا دکھ ہے کہ ان کے بیٹے کی قید کو ایک ہزار دن سے بھی زائد ہوگئے ہیں تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ فلسطین، شام، لبنان اور اردن کے اسیران کے ایام قید چھ کروڑ دنوں سے زائد بنتے ہیں-

مختصر لنک:

کاپی