اس کے علاوہ یہ بھی ایک معروف حقیقت ہے کہ ان سفراء کو ان کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو مدنظر رکھے بغیر نامزد کردیاگیا‘ ان میں ایسے سفیر بھی ہیں کہ جو انگریز نہیں جانتے یا عالمی سیاست کے بارے میں ان کی معلومات ابتدائی نوعیت کی ہیں- ان نام نہاد سفارتکاروں کا صرف یہ کام ہے کہ آئے روز کی تقریبات میں شرکت کریں اور شراب خانوں میں ہر شام پہنچیں- دوسرے ممالک میں سفراء کا تقررکرنے کی بجائے ہم مختلف ممالک میں ایسے ترجمان متعین کریں کہ جو اسرائیلی بربریت اور جارحیت کو ساری دنیا کے سامنے پیش کرسکیں- موصولہ اطلاعات کے مطابق وارسا پولینڈ میں فلسطینی سفیر (میں ان کا نام درج نہیں کرنا چاہتا) نے اپنے ہم منصب اسرائیلی سفیر کو الوداعی پارٹی میں مدعو کیا کہ جب پولینڈ میں اسرائیل کے سفیر ڈونلڈ ڈبوڈ پلائی گاتم ‘ اپنے منصب سے سبکدوش ہوئے-
فلسطینی سفیر نے جو ہتک آمیز رویہ اختیار کئے رکھا ہے میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتاہے‘یہ وہی صاحب ہیں جو قبل ازیں اسرائیلی جارحیت کے جواب میں کئے جانے والے فلسطینی اقدامات کو کئی بار دہشت اور تشدد قرار دے چکے ہیں- وارسا سے جو رپورٹیں میں نے وصول کی ہیں اور یہ درست ثابت ہوجاتی ہیں‘ تب پی ایل او جس کا دعوی ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی واحد اور تنہا نمائندہ ہے کو چاہیے کہ مذکورہ شخص کو فی الفور اپنے منصب سے برخواست کرے- ایک ایسی ریاست کے سفارت کار کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرنا کہ جس کے ہاتھوں پر فلسطینیوں کا خون ہے ‘ نابینا پن نہیں تو اور کیا ہے –
اس کامطلب ہے کہ فلسطینی سفیر کے نزدیک‘ شہید ہونے والے 1400فلسطینیوں کے خون کی ذمہ داری اسرائیل پر نہیں ہے – انہوں نے اسرائیلی سفیر کو الوداع کہا – کھانا صرف اس لئے دیا ہے کہ وہ صہیونی ریاست اور اہل کاروں کے لئے پسندیدہ بن سکے- ایسے لوگ جو اپنی قوم اور اپنے وطن سے زیادہ دشمن ملک کے مفادات اور وش حالی کا خیال رکھتے ہیں وہ کس طرح فلسطینیوں کے مفادات کی جنگ لڑ سکتے ہیں- راقم الحروف کو قابل اعتماد‘ خفیہ ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ چند فلسطینی سفیر ایسے ہیں کہ جو خوب شراب پیتے ہیں اور شراب پی کر نشے میں دھت ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد موساد اور دیگر انٹیلی جنس ایجنسیاں انہیں با آسانی ٹرپ کرلیتی ہیں- یہ رویہ نہ مسلمان کے شایان شان ہے نہ کسی معزز فلسطینی کے- مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فلسطینی سفیر‘ سفراء کی ذمہ داریوں سے بالکل لا تعلق رہتے ہوئے بڑے بڑے کاروباری منصوبوں میں شرکت کرتے ہیں اور بڑی رقم کمانے کی فکر میں رہتے ہیں-
مقام افسوس ہے کہ رام اللہ کی فلسطینی اتھارٹی ان تمام معاملات سے یکسر لاتعلق ہے‘ اگرچہ ان اقدامات سے فلسطینیوں کے قومی مفاداور شہرت کو شدید نقصان پہنچ رہاہے- جہاں تک میرے علم میں ہے رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ‘ ایسے سفراء کی پوچھ گچھ نہیں کرتے ‘ اس لئے وہ ان غیر اخلاقی اقدامات میں مشغول پائے جاتے ہیں- عفیف صافیہ فلسطینی سفارت کاروں میں ایک اہم اور دانشور سفارتکار ہیں وہ لندن ‘واشنگٹن اور حال ہی میں ماسکو میں فلسطینی سفیر کے طور پر کردار ادا کرچکے ہیں- وہ درجنوں بار مغربی ٹی وی سکرینوں پر نظر آئے ہیں اور اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی جدوجہدکو انہوں نے پرزور انداز میں پیش کیا ہے- یہاں تک کہ صہیونی سرکل مجبور ہوگئے کہ یاسرعرفات سے کہیں کہ اس شخص کو برطرف کرڈالیں-
عرفات نے اس کا انکار کردیا‘ تاہم محمود عباس کو یہ پسند نہیں آیا کہ ایک شخص با وقار انداز میں مسئلہ فلسطین کی نمائندگی کر ہا ہے – لندن سے شائع ہونے والے روزنامے القدس العربی کے مطابق ‘ صافیہ نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا اور کہاکہ انہوں نے روس میں فلسطینی سفیر کی حیثیت سے اس ریلی میں شرکت کی جس میں غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی گئی تھی‘ جس کے نتیجے میں سینکڑوں لوگ زخمی اور شہید ہوئے – اس مثال سے واضح ہوتاہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت کسی قسم کے احمقانہ فیصلے‘ بلاسوچے سمجھے کرتی چلی جا رہی ہے – یہی وجہ ہے کہ پی ایل او کی قیادت کو تبدیل کئے جانے کا مطالبہ برحق محسوس ہوتاہے –
محمد ایوب منیر نے اس مضمون کو انگریزی سے اردو قالب میں ڈھالا ہے