تاہم یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ ایک دروغ گوسفارتکار ایک ایسے ’’باس ‘‘ کی نمائندگی کررہی ہے جو خود بھی دروغ گوئی کاماہر ہے -اس لئے اگر ہیلری کلنٹن وہی ڈرامہ بازو دوبارہ کرے ، وہی جھوٹ دوہرائے اور اسی طرح دھوکہ دہی کرے تو کسی کو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے – مقبوضہ بیت المقدس کے حالیہ دورے کے دوران نیویارک سے تعلق رکھنے والی سابق سینیٹر نے ثابت کردیا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو صہیونیوں کی خدمت کے لئے خالص کردیا ہے- انہوں نے وہی رٹے رٹائے الفاظ دہرائے کہ امریکہ ’’دوریاستی حل‘‘ میں یقین رکھتاہے-
تاہم انہوں نے مغربی کنارے یہودی آبادکاریوں کی توسیع پر کسی مہم کا اظہار خیال نہیں کیا- یہ واضح ہے کہ وسیع پیمانے پر ’’صرف یہودیوں کے لئے آبادیوں ‘‘ کے پھیلنے سے آئندہ کی فلسطینی ریاست کے قیام کے راستے میں مشکلات کھڑی کی جا رہی ہیں- یہاں تک کہ اسرائیل کے لئے ہمدردی رکھنے والے افراد مثلاً CBSکے راہنما باب سائمن نے یہ تسلیم کیا ہے کہ دو ریاستی حل ختم ہوچکاہے اور وقت گے گزر چکا ہے-
اوبامہ انتظامیہ کس طرح دو ریاستی حل کے ساتھ مخلص ہے جبکہ یہی امریکی انتظامیہ اسرائیل کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ نئی نئی تعمیراتی آبادیاں وجود میں لائے- اس معاملے میں خاموشی اختیار کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیل اپنی کاروائی جاری رکھے، امریکہ اوراسرائیل دونوں کے مفہوم تو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں- صاف صاف کہنے کے علاوہ مسز بل کلنٹن نے باصرار کہاکہ امریکی انتظامیہ کو اسرائیلی تحفظ کی سخت فکر ہے – گویا کہ نازی طرز کی نسل پرست حکومت، جس کے پاس سینکڑوں جوہری وارہیڈ موجود ہیں اور دنیا کی بڑی فوجوں میں سے ایک فوج موجود ہے – اسے کوئی خطرہ درپیش ہے –
ہیلری کلنٹن نے غزہ کی پٹی میں قتل عام پر بالکل خاموشی اختیار کئے رکھی، اگرچہ چھ ہزار افراد ،بچے اور عورتیں اس میں شہید ہوئے، امریکی ساختہ اور امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ ہتھیاروں کی مدد سے اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے بھوکے عوام پر فراخدلی سے موت نازل کی- اس قسم کی خاموشی سے معلوم ہوتاہے کہ ہیلری کلنٹن اس کی اہل نہیں ہیں کہ وہ ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام دے سکیں- آخر کار ان کا امریکی سیاستدانوں کی اس نسل سے تعلق ہے جن کے نزدیک انصاف، قانون اور ایمانداری کا کوئی مطلب نہیں ہے –
ہیلری کلنٹن کے چند دیگر بیانات کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے –
بیت المقدس میں انہوں نے کہاکہ اسرائیل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا دفاع کرے نیز یہ کہ کوئی بھی ملک باہر سے گرائے جانے والے میزائلوں کو برداشت نہیں کرسکتا- یہ نصف جھوٹ ہے جو مکمل جھوٹ سے بھی بدتر ہے- اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اس حقیقت کو فراموش کردیا ہے کہ انتہائی معمولی سامان سے تیار کردہ ’’راکٹ ‘‘ایک ایسی قوم کی آواز ہیں جو 1942ء کے بعد بہترین تعذیب خانوں کی زندگی کا سامنا کررہے ہیں- ’’باہر سے آنے والی معصوم عورت ‘‘سے یہ سوال کیا جاسکتاہے کہ تشدد کانشانہ بننے والے فلسطینیوں کو کیا کرنا چاہیے کہ جب ان کے گھرباروں کو تشدد کے مراکز میں تبدیل کردیا گیا-
کیا وہ فلسطینیوں کو یہ مشورہ دے رہی ہیں کہ وہ اسرائیل کے لئے پانی بھرنے والے اورمٹی ڈھونے والے مزدوروں کاکردار خوشی خوشی ادا کریں- نامزذاسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے فون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وہ مغربی کنارے میں آزاد فلسطینی ریاست کو قائم نہ ہونے دیں گی – ہیلری کلنٹن نے مزید کہاکہ اسرائیلی عوام جو حکومت بھی بنائیں گے امریکی انتظامیہ ان کے ساتھ تعاو ن کرے گی – پھر کیا وجہ ہے کہ انہوں نے فلسطینی عوام کی منتخب حکومت کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا ہے- کیا وہ سوچتی ہیں کہ اپنی حکومت کا انتخاب کرنا فلسطینیوں کا حق نہیں ہے –
چند ہفتے پہلے اسرائیلیوں نے نئی پارلیمان(کنیسٹ) کا انتخاب کیا، ان میں سے اکثریت فاشسٹوں پر مشتمل ہے جو کھلم کھلا اعلان کرتے ہیں کہ غیر یہودیوں کے قتل عام کے ذریعے علاقے کو پاک کرا لیا جائے، ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو تجویز دیتے ہیں کہ فلسطینیوں کو دیگر علاقوں میں منتشر کردیاجائے – جبکہ فلسطینی ان علاقوں میں ہزاروں سال سے رہ رہے ہیں-لیکن کلنٹن اوبامہ یا واشنگٹن ڈی سی کے دیگر سیاسی گماشتوں کی کوئی راء سامنے نہیں آئیں ،ان کے یک رخے نقطہ نظر کی وجہ سے مشرق وسطی تباہی کے دہانے تک پہنچ چکاہے –
مسز کلنٹن کو ایک اور نکتے پر غورکرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ انہوں نے غزہ کی تعمیر نو کے لئے جو رقم فراہم کرنے کا ارادہ کیا ہے اس سے فلسطینیوں کو موقع ملے گا کہ ایک ایسی حکومت کی تشکیل کریں اور فلسطینیوں کا اپنے وطن واپسی کا حق پس منظر میں چلاجائے گا- لیکن فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو کوئی نہیں چھین سکتا- اسرائیل کی یہ سازش ناکام ہوگی- سازشی جو کردار اداکریں ان کو منہ کی کھانا پڑے گی- اب میں ان فلسطینی اور عرب لیڈروں کی بات کرنا چاہتاہوں جو واشنگٹن میں کسی نئے شخص کے برسراقتدار آنے کے ہر موقعہ پر نئی امیدیں باندھ لیتے ہیں- اس حقیقت کو سمجھنے کا موقع چکاہے کہ واشنگٹن میں حقیقی انقلاب کے بغیر اور واشنگٹن کے صہیونی چنگل سے نکلے بغیر اس کا بالکل بھی امکان نہیں ہے کہ امریکہ فلسطین میں قیام امن کے لئے کام کرے –
ایک اسرائیلی افسر کا کہناہے کہ ’’ہم اپنے امریکی دوستوں سے یہ نہیں کہتے کہ یہ کریں وہ کریں ، ہم انہیں حکم دیتے ہیں کہ یہ کام کریں -‘‘حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جو یہودی خزانے اور یہودی طاقت کا غلام بن چکاہے وہ کبھی بھی مشرق وسطی میں اور فلسطین میں امن قائم نہ ہونے دے گا-ایسی ریاست کو ’’ریاست ہائے متحدہ اسرائیل ‘‘ کہنا چاہیے – ’’ریاست ہائے متحدہ امریکہ ‘‘ نہیں حالیہ سالوں اور مہینوں میں کچھ امریکی سیاستدانوں نے خبر دار کیا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کے حق میں جو جھکائو اختیار کررکھاہے اس کا اسے نقصان پہنچ چکاہے –
سی آئی اے کے ایک سابق تجزیہ نگار مائیکل شیور جو سی بی ایس نیوز کے کنسلٹنٹ ہیں، کا کہناہے کہ ’’امریکہ کی اسرائیل کے لئے بے حد و حساب حمایت کی وجہ سے9/11کا واقعہ رونما ہوا -‘‘
مشرق وسطی میں جارج بش کے پہلے نمائندے انتھونی زینی نے کہاہے کہ ’’امریکہ نے اسرائیل اور تیل کے لئے عراق پر حملہ کیا-‘‘اسرائیل، اوبامہ انتظامیہ پر دباؤ ڈال رہاہے وہ ایران پر حملہ کرے تاکہ مشرق وسطی میں اسرائیل کی فوجی بالادستی کو مستحکم کیا جاسکے- کچھ امریکی افسران اسے تسلیم کرچکے ہیں لیکن وہ کھلم کھلا اس کا اظہار نہیں کرتے تاکہ وہ بلیک لسٹ نہ ہوجائیں-یہ بالکل واضح ہے کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیلی استعمار اور مجرمانہ کردار کو تسلیم کرنے سے فلسطین میں امن قائم نہیں ہوسکتا-
امریکہ میں ایسے سیاستدان پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ جو ایمانداری پر یقین رکھتے ہوں ، یہودی لابی سے خوفزدہ نہ ہوں- اس وقت تک ممکن نہ ہوگا جب تک امریکہ، اسرائیل کے تباہ کن کردار اور اس کے ایجنٹوں کے قومی زندگی میں عمل دخل سے آگاہ نہ ہو-
ترجمہ :محمد ایوب منیر