ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 22فروری کو شائع کردہ رپورٹ میں نشاندہی کی ہے کہ ’’دونوں اطراف‘‘ کو جو اسلحہ فراہم کیاگیا ہے ،وہ شہریوں اور شہری املاک پر حملوں میں استعمال ہوا اور اسلحے کا اس طرح استعمال جنگی جرائم کی زد میں آتاہے – تاہم باریک بینی سے رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگاکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل حماس اور اسرائیل کو برابر رکھ رہی ہے جبکہ صورت حال یہ ہے کہ حماس زادی کے لئے کام کرنے والا ایک چھوٹا سا گروپ ہے جو غیر ملکی نازی طرز کے فوجی تسلط کے خلاف جدوجہد کررہی ہے جبکہ اسرائیل ایک مجرم ریاست ہے جو سرتاپا اسلحہ سے لیس ہے جو فلسطینی عوام پر اپنا غیر قانونی استعماری Colonialتسلط برقرار رکھنے کے لئے ہر وہ جرم کرنے کے لئے تیار ہے جو سورج کی روشنی میں اس دنیا میں ممکن ہے-
یہ جان لینا چاہیے کہ کوئی شخص یہ دعوی نہیں کرتاکہ حماس مکمل طور پر الزامات سے مبرا ہے- معصوم شہریوں کو نشانہ بنانا کوئی بھی قبول نہیں کرے گا- تاہم ایک ایسی قوم کی جدوجہد کو جو عرصہ دراز سے مجرم فوجی تسلط کا مقابلہ کررہی ہے ،کا موازنہ کس طرح ایک ایسے ملک سے کیا جاسکتاہے کہ جو غیر ملکی ’’تسلط ‘‘ کی عملی شکل ہے اور ضمیر نامی ہرچیز سے ناواقف ہے-
اگر ہم یہ کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ عظیم دو م کے دوران نازی حملوں کا مقابلہ کرنے والوں کے اقدام کو حملہ آور کے اقدام کے برابر سنگین قرار دیا جائے- ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انسانی حقوق کے دفاع کے لئے جو کوششیں کی ہیں اس کا ہمارے دلوں میں بھرپور احترام ہے تاہم عصمت دری کا شکار بننے والی عورت کی مزاحمت کو زنا کا ارتکاب کرنے والے ظالم شخص کے مجرمانہ فعل کے برابر نہیں قرار دیا جاسکتا- میں نے یہ مثال اس لیے بیان کی ہے کیونکہ اسرائیلی جرم و تشدد اور ناجائز تسلط ، عصمت دری کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے-
گھریلو ساختہ او رنسبتاً سرسری نوعیت کے راکٹوں کا اسرائیلی شہریوں پر پھینکے جانے کو کوئی بھی پسند نہیں کرے گا، تاہم ان راکٹوں کے ذریعے دس سالوں میں چند اسرائیلیوں کی ہلاکت (اوسطاً ایک سال میں ایک )کوغزہ کی شہری آبادی کے انفراسٹرکچر کی تقریباً تباہی کے کنارے تک پہنچا دینے کے برابرنہیں قرار دیا جاسکتا کیونکہ اسرائیل نے ہزاروں عورتوں ، مردوں اور بچوں کو تہہ تیغ کردیا ہے- بدترین اور بے حد و حساب تشدد کے غیر محفوظ شہری آبادی پر استعمال کو اعداد و شمار کاکھیل یادلیل کی غلطی قرار نہیں دیا جاسکتا، یہ ایک کھلم کھلا جنگی کاروائی کا ارتکاب ہے جس کی ذمہ داری ان جنگی مجرموں پر عائد ہوتی ہے جن پر مقدمہ چلایا جانا بے انتہا ضروری ہے-
غزہ کی پٹی میں جو سلسلہ آج چل رہاہے ،اس کے حوالے سے بات کرنے سے قبل یہ ضروری ہوگاکہ موجودہ حالات کو سمجھا جائے یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے پندرہ لاکھ شہریوں کو مجبور کررہاہے کہ یا تو مظالم کا سامنا کرتے ہوئے کیڑے مکوڑوں کی طرح موت کو منہ لگالیں جس کی وجہ سے غزہ کے شہری خاموش ہولوکاسٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں یا پھر وہ ردعمل کااظہار کریں اور جتنے وسائل بھی دستیاب ہیں انہیں استعمال میں لائیں-
جہاں تک تشدد اور ہتھیاروں کے استعمال کا معاملہ ہے حماس کے اقدامات کو اسرائیل کے تشدد کے برابر قرار دینا، بدنیتی ہے- حماس ایک چھوٹی سی تحریک ہے جس میں تشدد برداشت کرنے والے وہ شہری شامل ہیں کہ جو عرصہ دراز سے اسرائیلی مظالم اور ظلم و ستم برداشت کررہے ہیں- اسرائیل کے لئے حماس کوئی خطرہ نہیں ہے، اسرائیلی تو ایک فوجی سپر طاقت ہے جو امریکی سیاست اور امریکی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتی ہے- غزہ کی پٹی پر اسرائیل نے حال ہی میں فوجی حملہ کیا، اسرائیل نے ایف سولہ جنگی طیاروں اپاچے ہیلی کاپٹر ،میرکاوا ٹینک، بھاری توپخانہ ، یورینیم اورایسے کیمیکل ایجنٹ استعمال کئے گئے تاکہ کیمیکل انسانی گوشت کو نقصان پہنچائے، یہاں تک کہ اس کا نشانہ بننے والا موت کا شکار ہوجائے، فاسفورس بم اور دیگر مہلک ہتھیاروں کے استعمال کی خبریں تو شائع ہو چکی ہیں- اس کے مقابلے میں حماس کو دیکھیے جو انتہائی معمولی درجے کے میزائل پھینکتی ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہوتاہے کہ اسرائیل نے بھرپورقتل عام (Genocide)کا جو سلسلہ شروع کررکھاہے اس کو روکا جائے یا محدود کردیا جائے –
غزہ کی پٹی پر بھرپور جنگ مسلط کرنے کے دوران اسرائیل نے جان بوجھ کر شہری ٹھکانوں ،سرکاری عمارتوں،نجی گھروں ،یونیورسٹی کیمپس ،کالج کلاس رومز ،اقوام متحدہ کے تحت چلنے والے سکول، ڈیپارٹمنٹل سٹور، پرچون کی دکانوں اور کاروباری مراکز کو برباد کرتارہا،ایک بھرپور فضائی حملوں اور توپخانے کی ایک ایسی مثال تھی جس کا نشانہ عام شہری فاقہ زدہ آبادی بن رہی تھی- اس جنگ کے دوران سات ہزار فلسطینی جاں بحق، زخمی اور معذور ہوئے، یہ معذوریاں ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں گی تاہم ایسے لوگوں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے کہ جو اس جنگ کی بدولت نفسیاتی دباؤ اور ڈیپریشن کا شکار ہوئے –
ہم ایک ایسی صورت حال کا سامنا کررہے ہیں جو دونوں اطراف سے ہلاکتوں کا تناسب (10-1) کاہے – یہ کہنے کے لئے بڑا فوجی ماہر ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ جنگ نہیں تھی، یہ ایک بہت بڑا قتل عام (Massacre)تھا- ہم ایمنسٹی انٹرنیشنل سے گزارش کریں گے کہ پیچیدہ اصطلاحات کے استعمال کے ذریعے حقائق کو چھپانے کی کوشش نہ کرے – حقیقت کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے کہ ایمنسٹی نے اسرائیلی مظالم کو فلسطینی ردعمل کے برابر کرڈالا –
اس سلسلے میں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں خوفناک کاروائی اس لئے نہیں کی ہے کہ غزہ کی پٹی سے پروجیکٹائل ،غزہ کی پٹی میں پھینکے جاتے ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ غزہ کے شہریوں کو اس بات کی سزا دی جارہی ہے کہ انہوں نے ایک ایسی جماعت کوووٹ کیوں دیئے جو اسرائیل کو پسند نہیں ہے- غزہ کی پٹی کا محاصرہ جاری ہے ،یہ ایک جنگی جرم ہے، جو فلسطینیوں کے خلاف نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف ہے- دنیا نے انہیں دھوکہ دیا، عرب دنیا خاموش رہی، چند عرب ممالک تو باضابطہ طور پر اسرائیل کے ساتھ مسلسل تعاون کررہے ہیں- جہاں تک مغربی دنیا کا تعلق ہے اس نے طے کررکھاہے کہ اسرائیل کو باقی رہنے کا حق دینا ہے اور اس کے لئے ہر جائز و ناجائز تعاون کے لئے تیار ہے- جب غزہ پر حملے جاری تھے ،پوری قوم فاقے کررہی تھی، تشدد کا سامنا کررہی تھی،شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہاتھا اور اس کی وجہ سیاسی تھی، اس کی وجہ اسرائیل کا فلسطین پر قبضہ کرنے کا شوق تھا-
نازی اسرائیل نے فلسطینیوں کو وحشت و بربریت کا اس طرح نشانہ بنایا کہ فلسطینیوں کو مزاحمت اور ردعمل کا راستہ اختیار کرنا پڑا- عرصہ درازتک دہشت گردی کا نشانہ بنے رہنے کے بعد فلسطینیوں کو یہ جائز اور قانونی حق مل گیا کہ جو وسائل بھی انہیں فراہم ہوں ، اس کے ذریعے ردعمل ظاہر کیا جائے – اپنی حفاظت کی جائے – بجائے اس کے کہ ظلم کا نشانہ بننے والوں کو یہ الزام دیا جائے کہ وہ ظالم کے راستے کی رکاوٹ کیوں بن رہے ہیں- دنیا خصوصاً ایمنسٹی انٹرنیشنل کو چاہیے کہ اسرائیل کو بتا دے کہ اسے کوئی حق نہیں ہے کہ وہ پندرہ لاکھ فلسطینیوں کو کھلی جیل میں محبوس کرے – ایک ایسی جیل جس کے گرد لوہے کی تار یں ہیں ، واچ ٹاور ہیں ، ٹینک ہیں ،بارودی سرنگیں ہیں اور موت کا نشانہ بنانے کا دیگر سامان ہے-
ان حالات میں فلسطینی غاصب ، ظالم اور جارج کے ساتھ محبت کا اظہار نہیں کرسکتے- اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو حقیقی گھر میں تبدیل کردیا ہے- وہاں کے لوگوں کو ایندھن ،بجلی ، خوراک ،ادویات ، طبی سازو سامان اور اشیائے خورد و نوش تک رسائی حاصل نہیں ہے- کوئی دن ایسا نہیں جاتاکہ جب معصوم فلسطینیوں کو قتل نہ کیا جاتاہو، یہ ضروری ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے دیگر گروپ غزہ کی صورت حال کا مشاہدہ کرتے وقت مذکورہ بالا حقائق کو بھی سامنے رکھیں،اگر ایسانہ کیا گیا اور اسرائیل کے دباؤ کو تسلیم کرلیا گیا تو ایمنسٹی انٹرنیشنل کو انسانی حقوق کی بلندی کے لئے کام کرنے والی نمایاں ترین تنظیم کا اعزاز حاصل نہ رہے گا-
محمد ایوب منیر نے اس مضمون کو انگریزی سے اردو قالب میں ڈھالا