خصوصی انٹرویو میں اسماعیل ھنیہ نے تمام فلسطینی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات محض سیاسی مقاصد کے لیے نہیں کیے جارہے بلکہ مذاکرات قوم کی بقا کے لیے ناگزیر ہیں- غزہ میں حماس کی حکومت کے نزدیک قومی مفادات کا تحفظ اولین ترجیح ہے، قومی مفادات کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے حماس کی حکوت ہر سطح پرکوششیں جاری رکھے گی-
وزیر اعظم نے اپنی گفتگو م میں مذاکرات کے لیے چھ بنیادی نقاط کو زیر بحث لاتے ہوئے کہا کہ مذاکرات درحقیقت قومی مفادات کے حصول ، قومی عزت و قار اور قربانیوں کے تحفظ کے لیے پل کا کام دیتے ہیں- ہماری خواہش ہے دوسری جماعتوں سے مل کر تنظیم آزادی فلسطین کی از سر نو جمہوری بنیادوں پرتشکیل کریں جو کسی بھی قسم کے اسرائیلی تعاون کو نظر انداز کر کے صرف قومی حقوق او ر مفادا ت کو مد نظر رکھ کر اور بیرونی دباؤ سے مکمل طور پر آزاد ہو کر قوم کا تحفظ کر سکے- اس کے علاوہ ایک ایسی مشترکہ سیکیورٹی فورس کی تشکیل جو اسرائیلی اشاروں پر چلنے کے بجائے حق مزاحمت کا تحفظ کرے –
انہوں نے کہا کہ معاہدہ قاہرہ ،قومی مفاہمتی فارمولا، معاہدہ مکہ ، غزہ میں تحریک انتفاضہ کے لیے وسیع تر اور مشترکہ طور پر کی جانے والی کوششیں اور مغربی کنارے میں تمام فلسطینی دھڑوں کا ا اتحاد و ہم آہنگی س امر کا واضح ثبوت ہے کہ قومی مفادات کو سامنے رکھ کر کیے گئے مذاکرات یقینا کامیاب ہو سکتے ہیں-
اسماعیل ھنیہ نے فلسطین کی داخلی صورت حال، اسرائیلی دہشت گردی اور عالمی سطح پر بدلتی سیاسی صورت حال سمیت کئی دیگر موضوعات پر تفصیل سے گفتگو کی، جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے-
حماس اور فتح کے درمیان جاری دو طرفہ مذاکرات وسیع تر اور جامع مذاکرات کا غاز ہیں ،تاہم مذاکرات کی کامیابی کے حوالے سے کچھ شکو ک و شبہات پائے جاتے ہیں – مذاکرات کے نتائج پرشکو ک و شبہات کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟
ھنیہ : فلسطین میں پایا جانے والا انتشار حقیقی نہیں بلکہ محض سطحی ہے تاہم اختلافات کی فضا سے نکلنے کے لئے ٹھوس بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے – میرا خیال ہے کہ اس کا بہترین راستہ بھی مذاکرات ہی ہیں- اس مقصد کے لئے ہمیں باہمی تعاون سے سیاسی عمل میں شراکت کے اصول کو فروغ دیناہوگا- میرا نقطہ ء نظر یہ ہے کہ ہم چونکہ اسرائیل سے زادی کے مرحلے میں داخل ہور ہے ہیں- اس لئے ہمارے پیش نظر صرف اور صرف قومی مفادات ہونا چاہئیں – مسئلہ فلسطین ہم سب کی اولین ترجیح ہو اور غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کو ایک یونٹ کے طور پر کام کرنا چاہیے تاکہ اختلافات کی فضاء کو کم سے کم کرکے مفاہمت پیدا کی جاسکے –
لیکن سوال یہ ہے کہ مذاکرات کی بنیاد کس نکتہ پر ہونی چاہیے؟
ھنیہ : حماس مخلصانہ اور ٹھوس قومی مفادات کی بنیاد پر مذاکرات کے لئے کوشاں ہے – یہی مذاکرات ہمیں قومی مفادات اورحقوق کے تحفظ میں ایک پل کا کام دے سکتے ہیں- ہم چاہتے ہیں کہ تمام فلسطینی جماعتیں ایسے مخلصانہ اور سنجیدہ مذاکرات کریں جو قومی مفادات سے وابستگی ، قومی عزت و وقار اور قربانیوں کا تحفظ کرنے میں مدد دیں –
ہم مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے تنظیم زادی فلسطین کی جدید جمہوری بنیادوں پر از سرنو تشکیل کے ساتھ ساتھ ایک ایسی قومی حکومت کے لئے کوشاں ہیں جو کسی بھی قسم کے داخلی اور خارجی دبائو سے زاد اور قومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بناسکے- اس کے ساتھ ساتھ فلسطین (مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی ) میں ایک ہی سیکورٹی فورس کی تشکیل کے لئے جدوجہد کررہے ہیں جو اسرائیل سے تعاون کرنے کے بجائے فلسطینی عوام اور مزاحمت کا تحفظ کرسکے-
یہ عجیب بات نہیں کہ اب سے کچھ عرصہ قبل بعض عناصر مذاکرات کی مخالفت کرتے رہے ہیں ،اب وہ بڑی شدت کے ساتھ مذاکرات کی حمایت پر زور دیتے ہیں- پ اس پر کیا کہیں گے ؟
ھنیہ :یہ سوال کے مذاکرات کے اسباب و محرکات کیا ہیں قطع نظر اس کے اہم صرف قومی مفادات کے حصول اور قومی وحدت کے لئے کوشاں ہیں- حماس کی روز اول سے یہ کوشش رہی ہے کہ نے والے وقت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مشترکہ قومی سیاسی پروگرام ترتیب دیا جائے جو فلسطینی عوام کی زادی ، پناہ گزینوں کی واپسی اور ایک ایسی فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت القدس ہو کی بنیاد رکھی جا سکے –
جن مقاصد کے تحت مذاکرات کی داغ بیل ڈالی جا رہی ہے پ کے خیال میں اس کی کس حد تک کامیابی کے امکانات ہیں ؟
ھنیہ : قومی خواہشات اور امنگوں کی تکمیل کے لئے ہمیں ماضی کے ان معاہدوں کو مد نظر رکھنا ہوگا جو مذاکرات کی کامیابی کے لئے اہم دستاویزات قرار دی جاسکتی ہیں- میثاق قاہرہ ، نیشنل ری کونسلیشن ، معاہدہ مکہ ،غزہ کی پٹی میں تحریک انتفاضہ کی طویل مشترکہ جدوجہد اور مغربی کنارے میں فلسطینی جماعتوں کی باہمی ہم ہنگی ایسے محرکات ہیں جو مذاکرات کی کامیابی کی ضمانت دے سکتے ہیں-مذاکرات کی کامیابی کے لئے پہلے خوشگوار فضا تیار کرنا ہوگی ، اس سلسلے میں سیاسی اسیروں کی رہائی ، سیکورٹی اداروں کے حملوں کی روک تھام ، بند کئے گئے رفاہی اداروں کو دوبارہ کھولنے اور سیاسی اور سیکورٹی امور میں مشترکہ میکنزم جیسے اقدامات شامل ہیں-
سیاسی گرفتاریوں کے روکے جانے کے معاہدوں کے باوجود اس پر عمل در مد نہیں کیاگیا – اس کی کیا وجہ ہے ؟
ھنیہ :یہ امر یقیناً باعث تشویش ہے کہ حال ہی میں حماس اور فتح کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں سیاسی گرفتاریوں کاباب بند کرنے پر اتفاق کیاگیاتھا- اس کے علاوہ ایک دوسرے پر الزام تراشی اور میڈیا پروپیگنڈے سے اجتناب کرنے اور گرفتارسیاسی اراکین کی رہائی کا بھی باقاعدہ معاہدہ طے پایاتھا، لیکن بدقسمتی سے ہمیں رام اللہ کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں مل سکا، بلکہ معاملہ اس کے بھی برعکس ہے- فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام جیلوں سے نہ صرف حماس کے قیدیوں کو رہا نہیں کیاگیا بلکہ ان پر تشدد کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے-
غزہ میں حکومت پربھی انتقامی کارروائیوں کے الزامات ہیں- اس پر آپ کیا کہیں گے ؟
ھنیہ : ویسے معصوم عن الخطاء تو کوئی بھی نہیں ہوتا ، لیکن غزہ میں دانستہ طور پرحکومت نے کسی کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا گیا – مذاکرات کا راستہ پھولوں کی سیج تو ہے نہیں ،مشکلات اور رکاوٹیں تو ہر جگہ ہوتی ہیں- ہم سیاسی میکنزم کے ذریعے مسائل کے حل کی کوشش میں ہیں- ہمارے نزدیک کوئی ذاتی مفادات نہیں بلکہ قومی مفادات اولین حیثیت رکھتے ہیں، دوسری جانب سے بھی ہم اس کی توقع رکھتے ہیں –
غزہ میں اسرائیلی جاحیت کے بعد حکومت کی کیا ترجیحات ہیں ؟
ھنیہ : غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے سامنے فلسطینی عوام نے جس عزم و ہمت اور استقامت کا مظاہرہ کیا اس نے ایک جانب قابض صہیونی فوج کو شکست فاش سے دوچار کیا تو ساتھ ہی پوری قوم میں جذبہ جہاد ، اتحاد اور اخلاص کے جذبے کو مزید جلا بخشی – ایسے میں حماس حکومت کی کوشش ہے کہ فلسطینی عوام میں پیدا ہونے والے اس جذبہ ایمانی اور جرات و استقامت اور مزاحمت کو جاری رکھا جائے – حکومت کے نزدیک اس مقصد کے لئے جنگ کے بعد کی ترجیحات درج ذیل ہیں-
1- جنگ کے دوران شہداء کے خاندانوں ،زخمیوں ، بے گھر افراد کی فوری اور جنگی بنیادوں پر مدد کو یقینی بناتے ہوئے کسانوں اور ماہی گیروں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کرنا –
2- سفارتی ، سیاسی،ابلاغی اور عوامی دبائو کے ذریعے غزہ کی تمام بند راہداریوں کو کھلوانا اور غزہ کی معاشی ناکہ بندی ختم کرنا-
3- تعمیر نو ہماری تیسری ترجیح ہے- اس کے لئے حکومت نے مختلف محکمے تشکیل دے دئیے ہیں- ایک پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو تعمیر نو کے کاموں کی براہ راست نگرانی کررہی ہے – حکومت اس سلسلے میں سیاسی تفریق و امتیاز کے بغیر تمام شہریوں کے مسمار شدہ مکانات کی تعمیر نو کررہی ہے- یہ کام جتنا جلد مکمل ہو اتنا ہی بہتر ہے اور جنگی بنیادوں پر اس کی تکمیل کررہے ہیں- اس سلسلے میں فلسطینی عوام اور حکومت کو بڑے پیمانے پر امداد کی ضرورت ہے – حماس فنڈ ز کی متمنی نہیں بلکہ فلسطینی عوام کی مشکلات حل کرنا اصل ہدف ہے –
اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ کس انداز میں گے بڑھ رہاہے؟
ھنیہ :ہم جو قدم بھی اٹھا رہے ہیں وہ فلسطینی عوام کے وسیع تر مفاد کو مد نظر رکھ کر اٹھا رہے ہیں- اسرائیل سے جنگ بندی کا معاملہ کوئی نیا قدم نہیں بلکہ تحریک انتفاضہ کے بعد فلسطینی جماعتوں کی جانب سے یہ منصوبہ پہلے بھی پیش کیا جاتارہاہے- غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے بعد فلسطینی تنظیموں نے مصری کوششوں کے تحت اسرائیل سے ایک عارضی جنگ بندی پر اتفاق کیاتھا لیکن اسرائیل کی جانب سے حماس کے ہاں قید فوجی گیلادشالیت کی رہائی کوجنگ بندی سے مشروط کرنے کے بعد اب یہ معاملہ ختم ہوتا نظر تاہے-
آپ کے خیال میں اسرائیل نے معاہدے سے پسپائی کیوں اختیار کی؟
ھنیہ: یہ امر پوری دنیا کے سامنے ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے مختلف حیلوں بہانوں کی تلاش میں ہے، عارضی جنگ بندی کا جال بھی اس نے اسی وجہ سے پھینکے کی کوشش کی تھی، جسے فلسطینی عوام نے مسترد کردیا- حماس کے ہاں قید اسرائیلی فوجی گیلاد شالت کو طاقت کے ذریعے رہا کرنے میں ناکامی کے بعد اسے جنگ بندی کے ذریعے رہا کرنے پر زور دیا جارہا ہے- اسرائیل جنگ بندی کے ذریعے اپنے فوجی کو رہائی کے لیے کوشاں ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ حیلوں سے کبھی جنگ بندی اور کبھی اس سے فرار اختیار کر رہا ہے-
قیدیوں کی رہائی کا معاملا ہمارے نزدیک بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا اسرائیل قرار دیتا ہے، لیکن گیلاد شالیت کی رہائی صرف حماس کی جانب سے پیش کردہ قیدیوں کے تبادلے کی صورت میں ہو گی-یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل کی بعض جماعتیں قیدیوں کے تبادلے کے معاملے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں-
مصر اور حماس کے درمیان تعلقات کامعاملہ ہمیشہ ایک اہم سوال رہا ہے، بعض عناصر حماس اور مصر کے درمیان موجو د اختلافات کو مزید گہرا کر کے حماس کو قاہرہ کے لیے سیکیورٹی رسک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں-آپ اس پر کیا کہتے ہیں؟
ھنیہ: فلسطین اورمصر کے درمیان تعلقات کی نوعیت دیگر ممالک کے مصر سے تعلقات سے مختلف ہے- مصر اور فلسطین کے باہمی تعلقات تاریخی اہمیت کے حامل ہیں-دونوں ممالک کے درمیان جغرافیائی، تاریخی، مذہبی، ثقافتی اور اسلامی بھائی چارہے کا گہراتعلق رہا ہے- فلسطین اور مصر کے درمیان تعلقات ہی کو مصر اور حماس کے درمیان تعلقات کی نظر سے دیکھا جانا چاہیے- رہا سوال کے حماس اور مصر کے درمیان اختلافات کا، تو اس میں دو رائے نہیں کہ حماس اور قاہرہ میں اختلافات ہیں، تاہم سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ اختلافات کس نوعیت کے ہیں؟- حماس اور مصر کے درمیان اختلافات کی نوعیت محض سطحی ہے، اس کا تعلق نظریات سے نہیں بلکہ چند پالیسیوں سے ہے-
حماس نے مصر کے ساتھ تعلقات کے فروغ کے باب میں مضبوط اقدامات کیے ہیں، حماس نے ہمیشہ مصر کے لیے خطرہ بننے کے بجائے اس کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کی – مصر کے داخلی امور میں کبھی مداخلت نہیں کی اور سیاسی اختلافات کے باوجو دنظریاتی اختلافات کی نوبت نہیں آنے دی- نوے کی دہائی سے ہی حماس اور مصر کے درمیان باہمی احترام کی بنیادوں پر تعلقات فروغ پذیر رہے ہیں-
یہ تاثر درست ہے کہ بعض عناصر حماس اور مصر کے درمیان اختلافات کوہوادے کر اپنے مخصوص مفادات پورے کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں- یہ وہ لوگ ہیں جو عرب ممالک سے حماس کے تعلقات سے متعلق حماس کے نقطہ نظر سے یا تو ناواقف ہیں یا حماس کی تاریخ سے بے بہرہ ہیں- حقیقت میں یہ وہ عناصر ہیں جو غزہ کی پٹی پراسرائیلی جارحیت کو جائز قرار دہتے ہیں، ان کے خیال میں اسرائیل کے تمام اقدامات قانونی طور پر درست ہیں اوران کے نزدیک حماس کی پالیسی غلط بنیادوں پر استوار ہے-
معلوم ہوا ہے کہ فلسطینی شہریوں خصوصا اہل غزہ کو صحرائے سیناکی جانب منتقل کئے جانے کی تجاویز پیش کی جارہی ہیں- آپ کا اس پر کیا تاثر ہے؟–
ھنیہ :فلسطینی عوام کی جڑیں اسی سرزمین میں ہیں، ہم نہ تو صحرائے سینا کی جانب جارہے ہیں اور نہ ہی کسی اور علاقے میں منتقل ہو نا چاہتے ہیں؟ حماس کے دیرینہ مطالبات اور قومی اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ فلسطینی جہاں کہیں آباد ہیں انہیں اپنے وطن میں آنے اور یہاں آباد ہونے کا حق حاصل ہے، حماس فلسطین سے نکالنے گئے شہریوں کی واپسی کی جنگ لڑ رہی ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم غزہ کو چھوڑ کر کسی اور جگہ جا بسیں- اس طرح کی تجاویزقابل عمل تو کیا زیر غور لانے کے لائق بھی نہیں-
جنگ کے بعد غزہ میں بیرونی وفودکی آمد کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ھنیہ: غیر ملکی وفود ان کا تعلق عرب ممالک سے ہو یا دنیا کے کسی دوسے ملک سے، حماس اور فلسطینی عوام انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام ان غیر ملکی وفود کے آمد کو مفید اور نتیجہ خیز بھی دیکھنا چاہتے ہیں-یہ وفود غزہ میں اسرائیل کی جنگی جرائم کو بے نقاب کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں- ایسے میں ہمارے خواہش ہے کہ ا ن کی آمد سے غزہ کی بند راہداریاں کھولنے میں مددملے، غزہ کی معاشی ناکہ بندی ختم کی جا سکے، یقینا یہ وفود غزہ کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ معاشی ناکہ بندی کے خاتمے میں اہم کردار اداکر سکتے ہیں-
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ بعض وفود غزہ میں حماس کی آئینی حکو مت کے ساتھ عدم تعاون کرتے رہے ہیں؟
ھنیہ: یہ درست ہے،کیونکہ امریکی اور بعض یورپی وفود کا حماس کی حکومت کے ساتھ رویہ عدم تعاون پر مبنی رہا ہے-اس کے باوجود حماس کی حکومت نے ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کی کوشش کی –
مرکز: معرکہ غزہ میں عرب اور اسلامی ممالک میں پیدا ہونے والے عومی رد عمل کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ھنیہ:غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے دوران او ر اس کے بعد عالم عرب اور دنیا ئے اسلام میں فلسطینی عوام کے ساتھ جس یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا ، وہ لائق تحسین ہے- دنیا بھر میں فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی اور صہیونی دہشت گردی کے خلاف مظاہروں نے مسئلہ فلسطین کو جلا بخشی اور یہ مسئلہ ایک بار پھر تازہ کردیا-
ہم یہ امید رکھتے ہیں عالم اسلام میں مسئلہ فلسطین سے متعلق پید اہونے والی یہ تحریک اور بیدار ی کی لہر مزید بڑھے گی- یہ تحریک صرف احتجاجی مظاہروں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ قبلہ اول کے خلاف صہیونی سازشو ں کے خاتمے اور القدس کو یہودیانے سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کرے گی- موجودہ حالات میں نہ صرف فلسطینی عوام کو عالم اسلام کی مدد کی ضرورت ہے بلکہ قبل اول کے تحفظ کے لیے اور القدس کی آزادی کے لیے بھی سٹریٹیجک بنیادوں پر تعاون کی ضرورت ہے-
اسرائیلی انتخابات میں انتہا پسندوں کی کامیابی کے بعد اسرائیل کی داخلی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا دکھائی دیتا ہے؟
ھنیہ: میرا خیال ہے کہ اسرائیل کے حالیہ انتخابات صہیونی جماعتوں کے توقعات کے برعکس رہے ہیں،انتخابات میں انتہا پسندوکی واضح کامیابی سے اسرائیل کے لیے پیچیدگیاں مزید بڑھیں گے او ر سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار ہو گا-غزہ میں جنگ مسلط کر کے انتخابی نتائج کو اپنے حق میں کرنے والی جماعتیں’’کدیما‘‘ اور ’’لیبر پارٹی‘‘ اپنے مشن میں ناکام ثابت ہوچکی ہیں اور فلسطینیوں کے خون کی قیمت پرانہیں انتخابات میں کامیابی نہیں مل سکی- ایسے میں اسرائیل میں سیاسی جنگ و جدل کا بھی امکان ہے، تاہم فلسطینی عوام کے لیے وہ سب یکساں ہیں، ہمیں ان کی سازشوں کو مد نظر رکھنا ہو گا-