جرمنی کے صدارتی انتخابات میں جو 13مارچ 1932ء کو ہوئے ہٹلر کو ایک کروڑ دس لاکھ ووٹ ملے یہ کل ووٹوں کا ایک تہائی تھے- اس کے حریف صدر ھندن برگ نے ایک کروڑ اسی لاکھ ووٹ حاصل کیے جو کل ووٹوں کا 49 فیصد تھا ھندن برگ کو دوٹوک اکثریت نہ مل سکی تھی- ہٹلر نے اس موقعے سے فائدہ اٹھایا اور اس نے ایک بھر پور جارحانہ مہم کا آغاز کردیا جس کے ذریعے اس نے قوم پرستی کے جذبات کو ابھارا اور ہر شخص کے ساتھ کسی نہ کسی چیز کا وعدہ کرلیا تیسری Reichمیں اس نے اعلان کیا کہ ہر جرمن لڑکی کو ایک شوہر مل جائے گا-
10اپریل 1932ء کو لوگوں نے ووٹ ڈالے جس میں ہٹلر کو ایک کروڑ 35لاکھ ووٹ مل گئے یہ کل ووٹوں کا 36فیصد تھے جبکہ ھندن برگ کو ایک کروڑ ترانوے لاکھ ووٹ ملے تھے چند سیاسی تبدیلیوں کے بعد جنوری 1933ء میں ہٹلر نے جرمن ری پبلک کی بھاگ دوڑ سنبھال لی اور اسے جرمنی کا چانسلر چن لیا گیا بقیہ واقعات سب کے سامنے ہیں-
اسرائیل میں بھی ایسی ایک کہانی تیار کی جارہی ہے نازی ذہن رکھنے والے یہ انتخابات غزہ کی پٹی میں فوجی جارحیت اور بھر پور کارروائی کے فوری بعد ہوئے ہیں جس سے غزہ کی پٹی کا بڑا حصہ تباہ ہوگیا ہے اور ہزاروں افراد شہید اور زخمی ہوچکے ہیں شہید ہونے والوں میں بڑی تعداد معصوم بچوں کی ہے- 10فروری کو ہونے والے انتخابات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اسرائیلی یہودی معاشرہ تیزی کے ساتھ فاسثیت کی طرف بڑھ رہا ہے یہ درست ہے کہ صہیونیت شروع ہی سے نسل پرستی کو پروان چڑھانے کا باعث ہے تاہم صہیونی لیڈروں کی تازہ کھیپ قتل وغارت گری کے جرائم کے ارتکاب پر معذرت خواہ بھی نہیں ہے-
مثال کے طور پر اوگدر لیبرمین کی مثال لے لیجئے، تازہ ترین انتخابات میں اس کی کامیابی انتہائی حیران کن ہے وہ ایک ایسا شخص ہے کہ جو ہٹلر سے کافی مشابہت رکھتا ہے وہ سازشی ذہن کا مالک اور حریص ہے وہ انتہا درجے کا نسل پرست، جمہوریت دشمن اور خیالات وتصورات کے لحاظ سے نسل کشی (Genoside) پر یقین رکھتا ہے-
غزہ کی پٹی پر حالیہ جارحیت کے دوران لیبر مین نے تجویز دی تھی کہ غزہ کی پٹی پر جوہری بم گرادیا جائے- اس نے یہ جملہ دنیا دکھاوے کے لیے نہیں کہا تھا اس نے جو کچھ کہا تھا اس کے اختیار میں ہوتا تو کرگزرتا کیونکہ جو وہ کہتا ہے کرڈالتا ہے- لیبرمین یہ بھی چاہتا ہے کہ اسوان ڈیم پر بم گرا کر سارے مصر کو سیلاب میں بہا دیا جائے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو بحیرہ مردار میں پھینک دیا جائے اور تہران کو جوہری بم گرا کر ختم کردیا جائے-
اب جبکہ لیبرمین کی فاشٹ پارٹی، اسرائیل میں تیسری سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے وہ اسرائیلی سیاست کا ابھرتا ہوا تارا بن کر نمودار ہوا ہے بالکل اس طرح جس طرح 1920ء اور1930ء کے دور انیے میں جرمن سیاست میں ہٹلر نمودار ہوا تھا جس طرح جرمن سیاست دانوں کی کوشش تھی کہ وہ اپنے آپ کو ہٹلر کے لیے پسندیدہ بنادیں اسی طرح آج کے اسرائیلی سیاست دان چاہے دائیں بازو کے ہوں یا بائیں بازو کے (حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کا بائیں بازو کا بلاک، مغربی دنیا کی دائیں بازو کی پارٹیوں سے بھی زیادہ انتہا پسند ہے ) کوشش کررہے ہیں کہ لیبرمین کی ہمدردیاں حاصل کرلیں اور اس سے درخواست کررہے ہیں کہ مخلوط حکومت وہ ان کے ساتھ مل جائے- لیکن لیبرمین نے اسرائیل کے سیاسی نظام کا ایک حصہ بننے کا فیصلہ نہیں کیا ہے اس کا ہدف صرف یہ ہے کہ اسرائیل کا اہم ترین منصب حاصل کرسکے-
اپنی انتہائی بدنامی کے باوجود لیبرمین کو اسرائیلی سیاست کی کالی بھیڑ کی شہرت حاصل نہیں ہے- حقیقت میں نازی طرز کے انتہا پسندانہ تصورات رکھنے کے باوجود انتہائی جنونی پارٹیوں کی نسبت اسے زیادہ ماڈریٹ ہونے کی حیثیت حاصل ہے مثال کے طور پر ایکود لیومی(نیشنل یونین) اور ھبایت ھاد (یہودی وطن) جواس چیز کی پرزور وکالت کرتی ہیں کہ جس طرح کے قتل عام کا بائبل میں حکم دیا ہے اس پر عملدرآمد کرایا جائے یعنی فلسطینیوں کی نسلوں کو تباہ کرکے مٹادیا جائے کیونکہ یہ خداوند کا حکم ہے- لیکن لیبرمین کی عوامی اپیل اور عوام الناس کے جذبات کوبھڑکانے کی صلاحیت سے وہ اسرائیل کی کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کی نسبت زیادہ خطرناک نظرآتا ہے وہ ایک ایسا سیاستدان ہے جس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اسرائیل کو اسی منزل کی طرف لے جائے جس کی طرف اسی سال پہلے ہٹلر، جرمنوں کو لے گیا تھا- لیکن جرمنوں کے برعکس جن میں سے اکثریت کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ انہیں کس سمت لے جایاجارہا ہے اسرائیلی جانتے ہیں کہ فاش ازم کیا ہوتا ہے صحیح ترین الفاظ میں یہودی نازیت کیا ہے اور یہ آج کے اسرائیل کا عام چلن بن چکا ہے-
12فروری کو اسرائیلی روزنامے ’’ہارٹس‘‘ نے ربی ڈاکٹر مائیکل بن آری کے حوالے سے یہ بیان شائع کیا کہ عام انتخابات میں اسرائیلی ووٹروں نے ربی میرکاھن کے خیالات کو تسلیم کرلیا ہے بن آری نے بتایا کہ ربی کاھن نے اسرائیل میں گہری جڑیں بنالی ہیں اور حالیہ انتخابات میں اسرائیلیوں نے بتادیا ہے کہ وہ کس سمت جارہے ہیں یہ خبر اسرائیلی فوجی ریڈیو پر کاھن کے گلی راھل کو دیے گئے انٹرویو کے حوالے سے شائع کی گئی ہے میر کاھن کا خیال ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازعے میں غیر یہودیوں کو نسل کشی کرکے ختم کردیا جائے اس نے اپنی کتاب ’’انہیں جانا چاہیے‘‘ میں انہی خیالات کی عکاسی کی ہے بن آری کاھن کا شاگرد ہے اس کا خیال ہے کہ اسرائیل فلسطین میں رہنے والے فلسطینیوں کو ونیزویلا اور ترکی جیسے مقامات میں منتقل کردیا جائے اس کا مزید اعلان ہے کہ وہ داخلی سلامتی کی وزارت میں دلچسپی رکھتا ہے تاکہ اسرائیل کو ’’غیر یہودیوں‘‘ سے پاک کردیا جائے اس کا کہنا ہے کہ ان اہم اقدامات کے لیے کسی نہ کسی کو آگے بڑھنا پڑے گا-
اسرائیل کے اندر جس قسم کی فضا گرم ہے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ایسے افسوس ناک واقعات دوبارہ رونما ہوں گے جیسا کہ دوسری جنگ عظیم دوم کے دوران رونما ہوئے تھے- اسرائیل کی مجرمانہ ذہن رکھنے والی طاقت کی حریص سیاسی قیادت کوئی بھی ایسا اقدام کرسکتی ہے کہ جس کا تصور بھی ممکن نہیں- وہ سرتاپا یا اسلحے سے لیس ہیں ان کو کوئی سیاسی خطرہ بھی درپیش نہیں ہے اوراس پر بھی اعتماد رکھتے ہیں کہ کیلی فورنیا سے نیویارک تک پھیلے ہوئے یہودی امریکہ پر کنٹرول رکھتے ہیں نیز نینسی پلوسی سے بارک اوبامہ تک سارے راہنما یہودیوں کی جیب میں ہیں-
اس لیے دنیا کو چاہیے کہ اسرائیل کی اس ظالمانہ روش کو پھلنے پھولنے نہ دیا جائے یورپ اور شمالی امریکا میں جو لوگ صہیونیوں کے زیر اثر ہیں ممکن ہے کہ وہ اس کو قبل ازوقت یا دور دراز کی فکر قراردیں لیکن میں اس سوال کو ضرور اٹھانا چاہتا ہوں کہ کیا کسی کو 1933ء میں معلوم تھا کہ ہٹلر وہ کچھ کرے گا جواس نے بعد میں کیا-