اسرائیلی اخبار’’ہارٹز‘‘ نے جنگ کے دوران ان شہریوں کے تاثرات شائع کیے ہیں جنہیں انسانی ڈھال کے طور پراستعمال کیا گیا- رپورٹ کے مطابق غزہ کے انتالیس سالہ مجدی عبد ربہ اپنے ساتھ بیتے جانے والے واقعے کی تفصیلات ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ’’اسرائیلی فوجی میرے گھر میں داخل ہوئے اور بندوق میرے کان پر رکھتے ہوئے کہا کہ قمیض اتارو، میں نے قمیض اتار دی،اس کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ اوپر کی منزل کی طرف چلو، میں ان کے آگے آگے سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر چلا گیا- اس طرح جب میں اپنے اہل خانہ کے پاس چلا گیا تو یہودی فوجیوں نے میرے اہل خانہ اور بچوں کو یرغمال بنا نے کے انسانی ڈھال بنا کر چاروں طرف فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا‘‘-
یہ واقعہ صرف مجد عبد ربہ کا نہیں بلکہ ’’ہارٹز‘‘ کو اس طرح کے حقائق سے کئی دیگر شہریوں نے بھی آگاہ کیا، جن میں محمود ضاہر، جبیر زیدان اور جمال کاتری شامل ہیں- ان فلسطینیوں نے جنہیں انسانی ڈھال بنایا گیا تھا ، اخبار کی رپورٹر عامریہ ہس کو بتایا کہ اسرائیلی فوجیوں نے دوران جنگ انہیں ان کے اہل خانہ سمیت انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا-
جبری زیدان نے بتایا کہ قابض فوج نے جنگ کے دوران اس کے بھائیوں اور اہل خانہ کوجمع کر کے انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا – ایک دوسرے شہری جمال کاتری نے کہا کہ قابض فوج نے اس کے گھر میں داخل ہو کر پہلے اسے تشدد کا نشانہ بنایا پھر ایک خاص مقام پر لے جانے کے اسے ڈھال بنا کرشہریوں پر فائرنگ شروع کر دی- اس دوران جوابی حملوں سے بچنے کے لیے مجھے انسانی ڈھال کے طورپر کھڑا کیے رکھا- ایک فوجی نے بندوق میرے کان پر رکھی اور ایک ہاتھ سے میرا بازو زور سے پکڑے رکھا-
غزہ جنگ کے دوران انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی بار بار فلسطینی شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی خبریں شائع کر چکے ہیں- واضح رہے کہ جنگ کے دوران اپنے مقاصد کے حصول کے لیے معصوم شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنا جرم تصور کیا جاتا ہے-یہ جنیوا کنونشن کے تحت طے پانے والے جنگی قواعد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہے-
اخبار نے اس رپورٹ کے ساتھ اسرائیلی محکمہ دفاع کی ترجمان کا وہ بیان بھی شائع کیا ہے، جس میں انہوں نے فوج کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جنگ کے دوران اسرائیلی فوج نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا ، جسے غیر اخلاقی یا غیر قانونی کہا جا سکے‘‘-